Maktaba Wahhabi

200 - 268
با ب ہفتم:اسلا می اور بین الا قو ا می قو انین جنگ کا تقا بل پچھلے با ب میں ہم نے اسلا می قو انین صلح و جنگ مختصراً بیا ن کر دیئے ہیں۔ اور یہ بھی واضح ہے کہ اسلا می قو ا نین، خواہ وہ زندگی کے کسی شعبہ سے بھی تعلق رکھتے ہوں، ان کا ما خذ قرآن و سنت کے بعد صحا بہ رضی اللہ عنہ کا تعا مل ہے۔ بین الا قوامی قا نون کا آغا ز: اب ہم یہ دیکھیں گے کہ صلح و جنگ سے متعلق بین الا قوامی یا بین الملی قا نو ن INTER NATIONAL LAW کیا ہے۔ اور اس کے ماخذ کون کو ن سے ہیں؟ ستر ھویں صدی عیسو ی سے قبل یو رپ میں بین الاقوا می قو ا نین صلح و جنگ کا تصو ر تک موجود نہ تھا ۔ ستر ھو یں صد ی کے آ غا ز میں ۱۶۱۸ئ؁ میں جب یو ر پ میں جنگ سہ سالہ چھڑی۔تو اس میں وحشت و بر بریت کے وہی مظا ہرے ہو ئے جو دَورِ جا ہلیت میں رائج تھے اور ذا تی اغر اض و مقا صد کے تحت جنگ، جنگ میں بہیمانہ نہ طور پر قتل و غا رت اور لو ٹ ما ر، قید یوں کا قتل یا زندگی بھر کے لیے غلا می اور پھر ان سے انسا نیت سو ز سلوک یہی کچھ یورپ میں اس وقت تک رائج تھا۔ اس وحشت و بربریت نے کچھ درد مند لوگوں کے ضمیر کو جھنجھوڑا کہ اس وحشت وبربریت کو ختم کرنے کے لیے جنگ کے لیے کچھ اخلاقی ضو ابط مقرر کیے جا نے چاہئیں۔چنا نچہ اس سلسلہ میں سب سے پہلی کوشش ہا لینڈ کے ایک دردمند گروٹیوسGROTIUSنے کی۔ اس نے ۱۶۲۵ءمیں ایک کتاب (DEJURE BALLIAC PACIS ) شا ئع کی۔ جس میں جنگ کے اخلاقی ضوابط پیش کیے گئے تھے۔ جن کی حیثیت محض سفارشات کی تھی۔ اہل یورپ مذہب سے توپہلے ہی بیزار تھے، مسیحیّت میں انہیں مذہب کی طرف سے ایسے قوانین کی کچھ رہنما ئی بھی نہیں مل سکتی تھی۔ لہٰذاگروٹیوس کی اس کتاب کو قبولِ عام حاصل ہوا۔
Flag Counter