میں اور نبوت کے بعد جوانی اہل مکہ کے ظلم سہنے میں گزری ، فنون سپہ گری سے واقفیت کہاں سے پیدا ہوتی ۔ ہجرت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم صادق اور امین کے ناموں سے تو مشہور تھے مگر کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیر اندازیا نیزہ باز کبھی نہیں کہا تھا۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف فن سپہ گری کا ہی نہیں بلکہ سپہ سالاری کی ذمہ داری ادا کرنے کا موقعہ پیش آیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں وہ کمال دکھایا کہ دنیا حیران ہے۔ اس کا دوسرا پہلویہ ہے، کہ سکندر عین نوجوانی کے عالم میں یعنی 20سال کی عمر میں ہی کشور کشائی کی طرف متوجہ ہوگیا۔ چنگیز 12سال کا تھا کہ اس کا باپ لڑائی میں مارا گیا تو وہ اس طرف متوجہ ہوا۔ نپولین سترہ سال کی عمر میں بھرتی ہوا۔ گویا یہ تینوں جرنیل آغاز جوانی سے فن حرب وضرب میں مشغول ہوگئے تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ خدمات سرانجام دینی پڑیں تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 54سال تھی۔ جوانی رخصت ہوچکی تھی اور بڑھاپے کے آثار پیدا ہوگئے تھے ۔ اس دور زندگی میں اس فن کو ہاتھ میں لے کر یہ کمال دکھانا بھی شاید تاریخ میں اور کہیں نہ مل سکے گا۔ (۳) سابقہ فوج: سکندر اعظم ، چنگیز خاں نپولین کے سپاہی فن سپہ گری اور اس کے نظم وضبط سے پوری طرح آشنا تھے۔ لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جس قوم سے واسطہ پڑا، وہ نظم وضبط کو اپنی توہین اور آزادی میں حائل تصور کرتی تھی۔ نسلی مفاخرت ان کی گھٹی میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا کارنامہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قوم کے ذہن اس قدر بدل دئیے کہ جنگ موتہ ۷ ھجری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غلام زیدبن حارثہ کو سپہ سالار مقرر کیا تو ان کی ماتحتی میں بڑے بڑے معزز صحابہ کرام ث اور دوسرے سردارانِ قریش اس جہاد میں روانہ ہوئے۔ علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فوجی کے قبائلی امتیاز کی بنیاد پر ایک دوسرے کی جانوں کے پیاسے تھے۔ مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں ایسی ہمدردی ، محبت اور اخوت[1] باہمی کے جذبات پیدا |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |