Maktaba Wahhabi

41 - 268
ذوالعشیرہ کے نام سے مشہور ہوا۔ الغرض ایسی کوششوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد مدینہ کے قرب وجوار میں بسنے والے قبائل کو غیر جانبدار بنانا تھا تاکہ جنگ کی صورت میں ان کا قریش سے تعاون کا خطرہ نہ رہے۔ (۳)علاقہ جنگ سے متعلق پوری واقفیت: علاقہ جنگ سے متعلق واقفیت بھی بسا اوقات فتح کا ایک اہم سبب بن جاتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کبھی نقل و حرکت کی ضرورت پیش آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کثر مہاجرین کو اپنے ساتھ لے جاتے اور غیر معروف راستوں سے منزل مقصود تک پہنچتے تھے۔ انصار تو کم و بیش ان علاقوں سے واقف تھے ہی۔ مہاجرین کو بھی اس آب و گیاہ علاقہ سے متعارف کرانا ضروری تھا۔ تاکہ عندالضرورت پڑا ؤ کے انتخاب یا پانی کی تلاش میں دقت پیش نہ آئے۔ چنانچہ غزو ۂ بواط یا ودان میں ۷۰ مہاجرین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور غزو ۂ ذوالعشیرہ میں ۱۵۰ کے لگ بھگ، ان دونوں غزوات میں، جن کا ذکر اوپر بھی آ چکا ہے، اسی مقصد سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر معروف اور طویل راستے اختیار کیے تھے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبیدہ بن الحارث کی سرکردگی میں ۶۰ مہاجرین پرمشتمل ایک گشتی سر یہ شوال ۱ھ میں بھیجا تھا تاکہ قریش کے حالات کی خبر لائے۔ یہ سریہ ‘سریہ رابغ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ قافلہ بھی غیر معروف راستوں سے ایک چشمے کے پاس پہنچا جو ثنیتہ المرہ نامی پہاڑی کے نیچے واقعہ تھا۔ یہاں پہنچ کر اس قافلہ کو معلوم ہوا کہ قریش کا ایک بہت بڑا تجارتی قافلہ عکرمہ بن ابوجہل کی سرکردگی میں مکہ کی طرف جا رہا ہے گویہ دونوں قافلے دو بدو ہو گئے تاہم مڈ بھیڑ نہیں ہوئی۔ کیونکہ مسلمانوں کو ابھی تک جنگ کی اجازت نہیںملی تھی۔ چنانچہ یہ قافلہ گشت لگا کر واپس آ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قسم کے معلوماتی سفر سے عموماً مندرجہ ذیل تین امور کی تحقیق مطلوب ہوتی تھی: (۱) کتنے اور کون کون سے قبائل جنگ کے موقعہ پر حلیف یا حریف بن سکتے ہیں؟ (۲) علاقہ کے طبعی حالات حملہ آور کے مخالف ہیں یا موافق؟ (۳) حملہ آور کو کس جگہ روکناچاہئے؟
Flag Counter