Maktaba Wahhabi

185 - 268
غلامی۔ تیسرا کوئی تصور موجود نہ تھا۔ غلاموں کو معاشرہ میں پست ترین تصور کیا جاتا تھا۔ لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور کیا جاتا کیونکہ وہ مردوں کی طرح محبت کرکے اپنے آقا کے حضور صلی اللہ علیہ وسلم آمدنی پیش نہ کرسکتی تھیں ۔ بچے جو آمدنی پیدا کرنے کے قابل نہ ہوتے انہیں چاند ماری کی مشقیں کرکے موت گھاٹ اتار دیا جاتا۔ پھر ان غلاموں کی باقاعدہ خریدوفروخت کی جاتی تھی۔ بعض قیدیوں کو درندوں کے آگے ڈال دیا جاتا۔ روم میں یہ دستور تھا کہ وہ لاتعداد قیدیوں کو سکھائے ہوئے درندوں کے سامنے چھوڑ دیتے اور ان کا مقابلہ دیکھتے۔ یہ ان کا مرغوب سامانِ تفریح تھا۔ کبھی ان قیدیوں کو کسی درخت وغیرہ سے باندھ کر ان پر نشانہ بازی کی مشق کی جاتی تاآنکہ وہ مرجاتا۔ اس طرح باندھ کر بے دست وپاکرنے کسی کو جان سے ماردینے کو عربی میں قتل صبر کہتے ہیں۔ اسلام نے اس وحشت وبربریت سے حکماً منع کردیا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبد الرحمن رضی اللہ عنہ نے ایک جنگ میں چند قیدیوں کو اس طرح قتل کرایا تھا پھر جب حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا اورکہا اللہ تعالیٰ کی قسم میں مرغے کو بھی اس طرح مارنا جائز نہیں سمجھتا‘‘۔ تو آپ نے کفارۂ گناہ کے طور پر چار غلام آزاد کیے۔ (ابو دا ؤ د۔ کتاب الجہاد۔ باب قتل الاسیر بالنبل) غلامی اور مستشرقین: آج کی متمدن دنیا اسلام کو غلام بنانے کے جو ازپر،بدنام کرتی ہے۔حالانکہ ہم بتاچکے ہیں کہ عملاً اسلام نے غلامی کو ختم کردیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسیران جنگ کے لیے بھی یہ ریت ڈال دی۔ کہ انہیں آزاد کردیا جایا کرے۔ بعد میں اگر ہمیں اس رسم غلامی کے آثار ملتے ہیں تو اس کا ذمہ وار اسلام نہیں بلکہ وہ مسلمان ہیں جنہوں نے جہاد فی سبیل اللہ کے تقدس کو پارہ پارہ کرکے اسے عام دنیوی جنگوں کی سطح پر لے آئے اور وہ سب کچھ کرنے لگے جوعام دنیا دار جرنیل اور بادشاہ اختیار کرتے ہیں۔ اسلام پر اعتراض یہ ہے کہ وہ اسیرانِ جنگ کو غلام بناناجائز رکھتا ہے۔ اور اعتراض وہ لوگ کرتے ہیں۔ جو جنگ کے بغیر بھی لوگوں کو غلام بنانے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ اہل یورپ خصوصاً انگریزوں ، فرانسیسیوں اور ولندیزیوں کی تمام دولت افریقہ سے لائے ہوئے
Flag Counter