Maktaba Wahhabi

184 - 268
والے اپنی خواہش سے مسلمان ہوگئے[1]۔ تاہم اس بات سے انکار ناممکن ہے کہ اسلام میں اسیران جنگ کو غلام بنانا گناہ یا حرام ہے۔ بعض دفعہ ایسے حالات پیش بھی آسکتے ہیں جیسا کہ غزوہ بنو نضیر کے موقع پر ہوا۔ اور اس اجازت کا ثبوت پر قرآن کی مندرجہ ذیل آیت سے ملتا ہے۔ ﴿ وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰي حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّيَـتِـيْمًا وَّاَسِيْرًا Ď۝ ﴾ (۷۶:۸) (اور یہ لوگ باوجودیکہ ان کو خود طعام کی خواہش ہے۔ مسکین کو یتیم کو اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔) لیکن غلام کو اتنے حقوق عطا کردیے گئے کہ نام کے علاوہ کچھ بھی فرق باقی نہ رہ گیا۔ غلاموں کا فقیہہ اور محدث ہونا تاریخ سے ثابت ہے۔ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متبنیّٰ بنایا۔ اپنی پھوپھی زاد بہن سے نکاح کیا۔ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ دونوں کو سپہ سالار لشکر بنایا۔ جن کے تحت بڑے بڑے صحابہ رضی اللہ عنہم کبار جہاد میں شریک ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ‘ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو جو حبشی غلام تھے سیدنا کہہ کر پکارتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کے مولیٰ سالم رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا کہ اگر وہ زندہ ہوتے تو میں انہیں خلیفہ نامزد کردیتا۔ حالانکہ وہ آزاد کردہ غلام تھے۔ اس سلسلہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد ہے: «اِنْ اُمّر عَلَیْکُمْ عَبْدٌ مُجَدَّ عٌ یَقُوْدُ کُمْ بِکِتَاب اللّٰه فَاسْمَعُوْا لَهُ وَاَطِیْعُوْا»[2] (اگر تم پر نکٹا غلام بھی امیر بنا دیا جائے تو جب تک وہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق چلاتا ہے اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔) چنانچہ تاریخ میں بے شمار ایسے مسلمان بادشاہ گزرے ہیں۔ جو غلام تھے ۔ محمود غزنوی مشہور فاتح بھی آزاد کردہ غلام تھا۔ ہندوستان اور مصر میں غلاموں کے خاندان نے صدیوں تک حکومت کی۔ اب کونسا وہ اعزاز باقی رہ جاتا ہے۔ جو صرف آزاد کے ساتھ مخصوص ہو اور غلام اس سے بے بہرہ ہو۔ اسلام سے پہلے کے اسیر اور قتل صبر: اسلام سے پہلے اسیران جنگ کے متعلق دو ہی متفقہ فیصلے تھے۔ ایک قتل، دوسرے دائمی
Flag Counter