حالات کے لئے جنگ فرض قرار دی گئی ہے۔ اس کی دوسری مثال یوں سمجھیے کہ ہر ملک میں فتنہ اور قتل و غارت کو ختم کرنے کے لئے عدالتیں قائم کی جاتی ہیں۔ یہ عدالتیں مجرموں کو قتل‘ قید‘ جرمانہ‘ بدنی سزا‘ غرض ہر طرح کی سزائیں دیتی ہیں۔ گویا وہ مجرموں کو اس لئے قتل کرتی ہیں کہ ملک سے قتل و غارت ختم ہو۔ عدالتوں کے اس طرز عمل کو ظلم نہیں بلکہ عدل کا نام دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر کا یا عدالت کا یہ طرز عمل بہرحال انفرادی قسم کے فتنہ اور ظلم کا علاج تو ہے مگر پورے معاشرہ کے بگاڑ کا علاج عدالتوں کے بس کا روگ نہیں۔ اندریں صورت حال فتنہ و فساد کے خاتمہ کی صرف یہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ فتنہ و فساد کے اساطین کو قوت سے کچل دیا جائے۔ قرآن حکیم نے اس فتنہ و فساد کا یہی علاج تجویز فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ -} (۲:۱۹۳) اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہ جائے۔ اور اسی ناگزیر ضرورت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا: {يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَي الْقِتَالِ } (۸:۶۵) اے نبی مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو۔ طریق کار: اندریں صورت ایک مصلح کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے پیش نظر اپنے ساتھ معاشرہ میں سے ان افراد کو اپنے ساتھ ملاتا ہے جو عقائد و نظریات میں اس سے متفق ہوتے ہیں۔ پھر یہ جماعت اجتماعی شکل میں باطل قوتوں سے بھڑ جاتی ہے۔ ایسی جنگ اگر دینوی اغراض و مقاصد کے تحت لڑی جائے تو اسے قتال یا جنگ کہتے ہیں۔اور اگر اس سے مقصد دنیا سے فتنہ و فساد کو ختم کرنا ہو۔ جسے شرعی زبان میں اعلائے کلمتہ الحق یا ’’اللہ تعالیٰ کے حکم کا بول بالا کرنا‘‘ کہتے ہیں۔ تو اسے جہادکا نام دیا جاتا ہے۔ جہاد اور قتال کا فرق: مندرجہ بالا تصریحات سے درج ذیل نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |