والی جگہ سے خندق پار کرگئے۔ ان میں ایک شہسوار عمرو بن عبدود رضی اللہ عنہ نے مقابلہ کے لیے للکارا۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کا کام تمام کردیا۔ باقی تین مقابلہ سے پیچھے ہٹ گئے۔ ان پیچھے ہٹنے والوں میں ایک نوفل تھا جو خندق میں گر پڑا ۔ مسلمانوں نے نیزوں پر دھر لیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بڑھ کر اس کا کام تمام کردیا۔ قریش مکہ نے نوفل کی لاش حاصل کرنے کے لیے دس ہزار درہم کی پیشکش کی ۔ کیونکہ انہیں خطرہ تھا کہیں مسلمان بھی شاید اس کی لاش سے وہی سلوک کریں گے۔ جو عام دستور ہے۔ ان کی اس پیشکش پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ ص کو فرمایا۔ لاش دے دو ۔ قیمت کی ضرورت نہیں ہم لاشوں کی قیمت نہیں لیا کرتے۔ (۲) قتل عام: اسلام اپنے حریف کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ ایک مقاتل یعنی وہ لوگ جو لڑنے کے لیے میدان جنگ میں پہنچ گئے ہوں دوسرے وہ جسے شہری آبادی کہا جاتا ہے یا جو جنگ میں عملاً حصہ نہیں لیتے۔ اسلام صرف پہلی قسم کے لوگوں کو قتل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اور وہ بھی جنگ کے دوران فتح کے بعد نہیں۔ پھر میدان جنگ میں پہنچنے والوں میں بھی اگر عورتیں اور بچے یا بوڑھے کھوسٹ ہوں تو ان کا قتل بھی درست نہیں سمجھتا۔ تو جنگ کے بعد شہریوں کا قتل عام کس طرح جائز قرار دیا جاسکتا ہے۔ جنگ سے اسلام کا مقصد فتنۂ وفساد کوختم کرنا ہے۔ جب فتح حاصل ہوگئی تو یہ مقصد حاصل ہوگیا۔ اب فتح کے بعد قتلِ عام ازسر نو فتنہ وفساد بپا کرنے کے زمرہ میں آتا ہے۔ اسلام اسے بھلا کیونکر برداشت کرسکتا ہے؟ (۳) نذرآتش: اسی طرح فاتح قوم اپنے ’’خطرناک دشمنوں ‘‘کو خواہ وہ قیدی ہوں یا شہری زندہ جلادیتی ہیں اور کبھی مفتوحہ شہر ہی کو جلا دینے کا حکم دے دیتی ہیں آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے منع فرمادیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:۔ «بَعَثَ رسُوْل اللّٰه صلی اللّٰه عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فِیْ بَعْثٍ وَقِالَ لَنَا اِنْ لَّقَیْتُمْ فُلَانًا وَفُلَانًا لِرَجُلَیْنِ مِنْ قُرَیْشٍ سَمَّا هُمَا فَحَرِّقُوْهُمَا بِالنَّارِ"قَالَ ثُمَّ "اَتَیْنَا نُوَدِّعُهحِیْنَ اَرْدَنَا الْخَرُوجَ: فَقَالَ: اِنِّیْ کُنْتُ اَمَرْتُکُمْ اِنْ تُحَرِّقُوْا فُلَانًا وَفُلَانًا بالنار وانّ النَّار لَا یُعَذِّبُ بِهَا اِلَّا اللّٰهُ فَاِنْ اَخَذْ تُموْهُمَا فَاقْتُلُوْهُمَا» (بخاری کتاب الجهاد باب لایعذب بالنار الا رب النار) (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو ایک فوج میں بھیجا اور قریش کے دو آدمیوں کا نام لے کر |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |