Maktaba Wahhabi

97 - 268
ہوں میں پیغمبر بلا شک و خطر اور عبد المطلب کا ہوں پسر حدیث مذکورہ میں تین باتیں قابل غور ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت اور نجدت کے واضح دلائل ہیں: (۱) فوج میں بھگدڑ مچی ہے۔ اس حال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خچر پرسوار ہیں۔ کسی تیز گام گھوڑے پر نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی کسی محفوظ مقام پر جلد پہنچ کر پناہ لے سکیں۔ (۲) خچر کا رنگ بھی سفید تھا۔جو دشمن کو دور سے بخوبی نظر آسکتا ہے۔ (۳) نعرہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ لگا رہے ہیں جو دشمن کے کینہ و عداوت کا اصل سبب ہے۔ ایک دوسری روایت حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ’’اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم خچر کو ایڑ لگانے اور دشمن کی طرف بڑھانے لگے۔میں نے لگام اور ابو سفیان نے رکاب تھام لی۔ اس ارادہ سے کہ آنحضور ا کو آگے بڑھنے سے روک دیں‘‘۔ اور صحیح مسلم میں اس واقعہ کے بعد پھر یہ الفاظ ہیں۔ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خچر سے اُتر پڑے۔‘‘ شجاعت و نجدت اور اللہ تعالیٰ پر توکل کی ایسی نظیر نہایت مشکل ہے۔ تیروں کی بوچھاڑ سے فوج تو دم دبا کر بھاگ نکلے اور سپہ سالار سواری کو ایڑ لگائے دشمن کی طرف بڑھنے پر مصر ہو۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اورچچا زاد بھائی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خچر سے اتر کر پیدل ہی اس طرف نعرہ لگاتے چل کھڑے ہوتے ہیں یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بینظیر شجاعت ہی کا نتیجہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف منہ کرکے پکارا’’یا معشر المہاجرین ‘‘ اور دوسری طرف منہ کرکے پکارا ’’یامعشر الانصار! تو تمام صحابہ اس آواز پر لبیک کہہ کر واپس پلٹ آئے اور ایسی ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا کہ شکست ‘ شاندار فتح میں بدل گئی۔ (۴)دشمن کا تلوار سونت کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر کھڑا ہونا: غزوۂ ذات الرقاع ۷ھ میں جو صلح حدیبیہ کے بعد پیش آیا۔ بنوغطفان چند قبائل کے ساتھ اتحاد کرکے مدینہ پر حملہ آور ہونا چاہتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار سو صحابہ ث کو لے کر ان کی گوشمالی کو نکلے۔ اس غزوہ کو ذات الرقاع یا چیتھڑوں والا غزوہ اس لیے کہتے ہیں کہ اس سفر میں سواری بہت کم تھی۔ چھ آدمیوں کے حصہ ایک اونٹ آتا تھا۔ اور اکثر صحابہ کو یہ
Flag Counter