Maktaba Wahhabi

96 - 268
ہوسکا۔ غور فرمائیے عام جنگوں میں اگر ایسی صورتحال پیش آجائے تو سپہ سالار کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہتا کہ وہ بھاگ کر اپنی جان بچائے ۔لیکن آپ خود پکار پکار کر اپنے دشمن کو مطلع کر رہے ہیں کہ میں اس جگہ ہوں۔ (۳)جنگ حنین : جنگ حنین میں بھی ابتداء ً مسلمانوں کے پا ؤ ں اکھڑگئے۔ اور بھاگنا شروع کردیا۔ مسلمانوں کو دشمن کے تیروں کی باڑھ سے کوئی جائے پناہ نہیں ملتی تھی۔ قرآن کریم میں ہے: ﴿وَیَوْمَ حُنَیْنٍ اِذْ اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْئًا وَّضَاقَتْ عَلَیْکُمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّیْتُمْ مُّدْبِرِیْنَ﴾ (۹:۲۵) (اور جنگ حنین میں جب تمہیں اپنی کثرت تعداد پر ناز تھا۔ لیکن وہ کثرت تمہارے کسی کام نہ آسکی۔ اور زمین اپنی فراخی کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے۔) حضرت براء بن عازب ص سے کسی نے جنگ حنین میں بھاگنے کی کیفیت پوچھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لَاوَ اللّٰهِ مَا وَ لَّی النَّبِی صلَّی اللّٰه عَلیه وسلم ولٰکنْ ولّٰی سرعان النَّاسِ فَلَقِیَهُمْ هُوَازَنَ بِا لنبل والنبی صلی الله علیه وسلم علیٰ بَغْلَتِهِ الْبَیْضَاءَ وَاَبُوْ سُفْیَانَ ابْنُ الْحَارِث اٰ خِذٌ بِلَجَامِهَا والنبی صلی الله علیه وسلم یَقُوْلُ» (اللہ کی قسم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹھ نہیں موڑی (جبکہ دوسرے لوگ بھاگ کھڑے ہوئے) ہوا یہ کہ جلد باز لوگوں نے پیٹھ پھیری (لُوٹ پر لگ گئے )ہوازن کے کافروں نے ان کو نیزوں پر دھرلیا۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سفید خچر پر دسوار تھے او ر ابو سفیان بن حارث اس کی لگام تھامے ہوئے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ شعر پڑھ رہے تھے) اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبَ اَنَا ابْنُ عَبْدُ الْمُطْلِبُ[1]
Flag Counter