Maktaba Wahhabi

162 - 268
«یاایهالناس لا تَتَمَنَّوْا لقاء العدوّواسْئلوا الله االْعَافِیَةَ فاذا لَقِیْتُمُوْهُمْ فَاصْبِرُوْا وَاعْلَمُوْ اَنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ ظِلَالَ السُّیُوْفِ قَالَ:اَللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْکِتٰبِ وَمَجْرَی السَّحَابِ وَهَازِمَ الْاَحْزَابِ اَهْزِمْهُمْ وَانْصُرْنَا عَلْیْهِمْ»[1] (اے لوگو! (۱)دشمن سے بھڑنے کی آرزو نہ کرو۔ (صلح پسند رہو)۔ (۲)اللہ تعالیٰ سے سلامتی مانگو۔ (۳)اور جب لڑائی آن پڑے تو صبر کیے رہو۔ اور یاد رکھو کہ بہشت تلواروں کے سایہ تلے ہے۔ پھر یوں دعا کی:’’اے اللہ قرآن نازل کرنے والے! بادل کو چلانے والے! فوجوں کو شکست دینے والے ان کافروں کو شکست دے اور ہم کو ان پر فتح دے۔) (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے باب ہذازیر عنوان مسلمان اور شکست) (۱۳)پابندیٔ عہد: اسلام میں عہد کی پاسداری اتنی ہی اہم ہے۔ کہ عین میدانِ جنگ میں بھی اس کا پورا پورا لحاظ رکھنا ضروری ہے خواہ اس سے کتنا ہی نقصان ہو رہا ہو۔ جنگ سے پیشتر دو صحابی ابو حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اور ابو حُسَیْل رضی اللہ عنہ مکہ سے مدینہ جا رہے تھے ۔ راستہ میں کفار نے روک لیا پھر جب ان دونوں نے شریک جنگ نہ ہونے کا عہد کیا تب جاکر ان کی جان چھوٹی۔ جنگ بدر میں مسلمانوں کے پاس سامان‘ اسلحہ اور افرادی قوت ہر چیز کی شدید کمی تھی یہ دونوں صحابی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جنگ کی اجازت چاہی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’وعدے کا پورا کرنا ہر حال میں مقد م ہے۔ ہم صرف اللہ تعالیٰ کی مدد چاہتے ہیں[2]۔ (۱۴)میدان جنگ اور رجزیہ اشعار: رجزیہ اشعار کا مقصد فوج کو جوش دلانا ہوتا ہے۔ جنگ حنین میں مسلمان فوج کے پا ؤ ں اکھڑنے لگے تو آپ بلند آواز سے یہ شعر پڑھ رہے تھے۔ اَنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ اَنَا اِبْنُ عَبْدُ الْمُطَّلِبْ (میں سچا نبی ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں‘ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں)
Flag Counter