Maktaba Wahhabi

215 - 268
(۳) موجودہ حکومتیں تبادلہ اور فدیہ کے بغیر قیدیوں کو رہا نہیں کرتیں۔ جب کہ اسلام نے انہیں ازراہ احسان اور بغیر لالچ کے آزاد کردینے کی بھی ایک شق رکھی ہے۔ اور اس پر بارہا عمل بھی ہوتا رہا ہے۔ دورِ نبوی کے 90فیصد اسیر ازراہ احسان ہی رہا کیے گئے۔ (۴) موجودہ حکومتوں نے کاغذات سے فی الواقع غلامی اور قتل کے الفاظ کو خارج کردیا ہے۔ لیکن عملاً ان کو حیلوں بہانوں سے بے دریغ قتل بھی کردیا جاتا ہے۔ لیکن اسلام میں یہ فریب کاری روانہیں۔ اس کے بجائے وہ سنگین حالات میں جبکہ ان پر کئی طرح کے شدیدالزامات ہوں انہیں قتل یا غلام بنانے کی اجازت دیتا ہے۔ جیسا کہ بنو نضیر کے ساتھ معاملہ ہوا۔ تاہم یہ صرف اجازت ہے حکم نہیں بہتر صورت یہی ہے کہ عفو ودرگزر سے کا م لیا جائے۔ اگر بنو نضیر کا فیصلہ بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار میں ہوتا تو شاید آپ کچھ نرمی کرجاتے۔ لیکن یہ فیصلہ یہود کے منتخب کردہ ثالث نے کیا تھا جسے طرفین نے بخوشی قبول کیا۔ (۵) موجودہ قوانین سترہویں صدی سے شروع ہوکر بتدریج یہاں تک پہنچے ہیں۔ لیکن اسلام نے یہ قوانین اس دور میں پیش کیے جبکہ اسیرانِ جنگ سے بدتر سلوک ہوتا تھا۔ جس کی طرف ہم پہلے اشارہ کرچکے ہیں۔ خود عرب کی یہ حالت تھی کہ غزوہ بدر کے قیدیوں کو فدیہ لے کر اس دور میں رہا کیا گیا جبکہ کفار قریش کے قبضہ میں بیشتر مسلمان قیدی تپتی ہوئی ریت پر لٹائے جاتے تھے۔ (۶) ان مہذب اقوام نے اسیران جنگ کو جو مراعات بخشی ہیں، اس کا جذبہ محرکہ ’’خوف انتقام ‘‘ ہے۔ جبکہ اسلام علی الاطلاق قیدیوں سے بہتر سے بہتر سلوک کی تلقین کرتا ہے۔
Flag Counter