Maktaba Wahhabi

257 - 268
مقصد جنگ کے اصل مقصد کے عین متضاد ہے۔ فتنہ و فساد کا خاتمہ ہی تو جنگ کا اصل مقصد ہے۔ اگر جنگ کے بعد بھی یہ فتنہ کھڑا ہو جائے تو جنگ کرنا ہی بے مقصد اور عبث فعل بن جاتا ہے۔ مختصر الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ عام دنیا کی جنگیں فتنہ و فساد اور ظلم کے وجودکے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں۔ اور اپنے نتیجہ میں فتنہ و فساد ہی لاتی ہیں۔ جبکہ اسلام میں جنگ ایسی جنگوں کو ختم کرنے کے لیے لڑی جاتی ہے۔ انتقامی کاروائیوں سے اس لیے روکا گیا ہے کہ وہ آئندہ کسی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں۔ نتائج میں فرق: جنگ و جدال کے نتیجہ میں انسان اپنے دشمن بدخواہ اور حاسد توپیدا کر لیتا ہے۔ دوست اور جاں نثار ساتھی پیدا نہیں کرسکتا۔ تلوار کا زختم نفرت اور عداوت ہی پیدا کرتا ہے محبت اور ہمدردی عطا نہیں کر سکتا ۔ لہٰذا مفتوح قوم کو جس وقت بھی اپنے پا ؤ ں پر سنبھلنے کا موقعہ ملتا ہے تو وہ فاتح قوم سے انتقام لینے کی تیاریاں شروع کر دیتی ہے۔ اور اس طرح دنیا میں فتنہ و فساد کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری رہتا ہے۔ لیکن اسلامی جنگوں کے نتائج اس سے برعکس نکلتے ہیں۔ یہاں دشمن کے بجائے دوست اور ہمدرد پیدا ہوتے ہیں نفرت کی بجائے عقیدت اور محبت بڑھتی ہے۔ طائف کا محاصرہ اٹھانے کے بعد وہ لوگ انتقام کے موقع کی تلاش نہیں کرتے بلکہ فوراً حلقہ بگوش اسلام ہو جاتے ہیں۔ صلح حدیبیہ کی بظاہر توہین آمیز شرائط کے باوجود اور قدرت رکھنے کے باوجود مسلمانوں کی صلح جو یا نہ پالیسی خالد بن ولید اور عمروبن عاص جیسے عظیم جرنیلوں کے ذہنوں کے رخ موڑ دیتی ہے۔ اور وہ اسلام کے سچے خدمت گزار بن جاتے ہیں۔ سہیل بن عمرو جو قریش مکہ کے نمائندہ اور صلح حدیبیہ کے ایک فریق تھے، اسی واقعہ سے متاثر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہوتے اور خطیب اسلام کہلاتے ہیں۔ فتح مکہ میں فتح کے بعد صرف اہل مکہ ہی اس ’’اخلاقی ضرب‘‘ سے اسلام کے ہمنوا نہیں ہو جاتے۔ بلکہ تمام قبائل عرب اسلام قبول کرکے اس کی قوت میں اضافہ کا سبب بن جاتے ہیں۔ بتائیے کہ دنیوی جنگ نے بھی کبھی ایسے نتائج پیدا کیے ہیں؟ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام جنگوں میں سے صرف غزو ۂ خیبر اور غزو ۂ مکہ پر کشور کشائی کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ باقی جنگیں یا دفاعی مقاصد کے لیے لڑی گئیں یا سرحدوں کی حفاظت کے
Flag Counter