Maktaba Wahhabi

256 - 268
ڈاکٹر کی چیر پھاڑ کی وجہ سے اسے کوئی ظالم یا درندہ صفت نہیں کہتا کیونکہ اس کا مقصد بگاڑ کی بجائے اصلاح ہوتی ہے۔اس طرح اسلام صرف فتنہ و فساد کے خاتمہ کے لیے جنگ کو جائز بلکہ ضروری قرار دیتا ہے۔ اور یہ انسانیت کی بہبود کیلئے برپا کی جاتی ہے۔ پھر جس طرح ڈاکٹر فی نفسہ مریض کا ہمدرد‘ خیر خواہ اور اس کے لئے رحم کے جذبات رکھتا ہے بعینہ اسلام فی نفسہ ایک صلح پسند دین ہے۔ جنگ سے وہ حتی الامکان گریز کرتا ہے مگر جہاں اس کے بغیر چارہ نہ رہا ہو صرف اسی وقت اسے ضروری سمجھتا ہے۔ ( ۲) طریق کا رمیں فرق: دنیا کی عام جنگوں میں جنگ جیتنے کے لیے ہر طرح کے جائز و ناجائز حربے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اندھا دھند ‘کشت و خون ‘شبخون‘ بے دریغ بمباری ‘ دشمن کی املاک کی بربادی۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عہد شکنی کرنا اور خفیہ معاہدات یہ سب کچھ مقصد کے حصول کے لیے جائزسمجھے جاتے ہیں۔ اگر افواج سے اخلاق یا کسی ضابطہ جنگ کی پابندی کا ذکر کیا جائے تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے کہ بھلا جنگ کا ضابطہ اخلاق سے کیا تعلق؟ ضابطہ اخلاق سے کوئی بات طے نہ ہونے سے ہی تو جنگ برپا ہوتی ہے۔ پھر جنگ کے دوران اس ضابطہ اخلاق کے کیا معنی ؟ لیکن اسلام مجاہدین کو جنگ لڑنے کا مکمل ضابطہ پیش کرتا ہے۔ اور اس پر کار بند رہنے کی سختی سے ہدایت کرتا ہے۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے ایسی جنگ جس میں اس کے مقررہ ضابطہ کی پابندی نہ کی گئی ہو، جہاد فی سبیل اللہ نہیں کہلا سکتی۔ پھر اس ضابطہ اخلاق کا بھی اصل الاصول یہ ہے کہ دشمن کا جانی یا مالی نقصان صرف اس حد تک جائز اور درست جس کے بغیر چارہ نہ ہو۔ اور یہ نقصان بھی ان حدود و قیود کے تحت ہو۔ جن کا ذکر پہلے کیا جا چکاہے۔ انجام کار جنگ کا فرق: فتح کے بعد بالعموم فاتح اقوام دشمن کے شہر کو نذر آتش کر دیتی ہیں۔ قتل عام کا بازار گرم کرتی ہیں۔ اور جوش انتقام میں ہر طرح سے وحشت و بربریت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ لیکن اسلام ایسی تمام حرکات کو گناہ عظیم قرار دیتا ہے۔ اگر اصل مقصد فتنہ و فساد کا خاتمہ تھا۔ جو فتح کے ذریعہ حاصل ہوگیا۔ اب اس کے بعد ایسی حرکات کا کوئی جواز نہیں۔جنگ کے بعد ایسا فتنہ و فساد اسلامی
Flag Counter