معرکہ کارزار گرم تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹھی بھر ریت کفار کی طرف پھینکی تو ہوا ؤ ں نے ان ذرات کو اڑا کر کفار کی آنکھوں میں ڈال کر انہیں چندھیا دیا اس عمل میں اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس مدد کو اپنے خاص احسان سے تعبیر فرمایا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿فَلَمْ تَقْتُلُوْهُمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ قَتَلَهُمْ ۠ وَمَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى﴾(۸:۱۷) (اے مسلمانو! کفار کو تم نے نہیں وہ تو اللہ نے مارا تھا اور نہ ہی اے پیغمبر! جو مٹھی تم نے پھینکی ‘ وہ تم نے نہیں پھینکی بلکہ وہ تو اللہ نے پھینکی تھی۔) یہ ہے تائید ایزدی کا صحیح مفہوم۔اس موقع پر بارش کا نزول اور ہوا ؤ ں کے رخ سے ریت کے ذرات کا کفار کی آنکھوں کو نشانہ بنانا اللہ کی بہت بڑی امداد ثابت ہوئے۔لیکن یہ امداد اس وقت آئی جب مسلمان اپنے مادی وسائل سے مقدور بھر استفادہ کر چکے تھے۔ آج کی افواج میں بحری بیڑے‘ بری فوج اور فضائیہ میں توازن نہ ہو تو جنگ صحیح معنوں میں لڑی ہی نہیں جاسکتی اور اس توازن کو افواج سہ گانہ کی متوازن تیاری کے بعد ان کا استعمال بھی ایسے منصوبے کے ماتحت ہونا چاہیے کہ ایک دوسرے کو مدد دے سکیں تاکہ ایک کی ضرب دوسرے کو آگے بڑھنے میں مدد دے۔اس طرح کی جنگ کو صف بہ صف جنگ یا متوازن منصوبے کی جنگ کہتے ہیں۔ مذکورہ آیت میں سیسے کی دیوار کی مثال دی گئی ہے۔سیسہ ایسی دھات ہے جو مضبوط ہوتی ہے اور لچک دار بھی۔اور یہی دو صفات افواج میں ہونی چاہئیں۔تاکہ دشمن کی ضربات سے صف ٹوٹنے نہ پائے۔اور اس محاذ کا کوئی حصہ کمزور نہ ہو جائے۔لچک کی وجہ سے صرف معمولی طور پر اور وقتی طور پر دب جائے اور جونہی دشمنوں کا دبا ؤ ہٹے اسی وقت پھر اپنے پہلے مقام پر چلا جائے۔ (۳) جنگی نقشہ کی فوری تبدیلی: معرکہ کار زار میں ایسا وقت بھی آجاتا ہے کہ فوج کے پا ؤ ں اکھڑ جاتے ہیں اور شکست کے آثار پیدا ہونے لگتے ہیں اس وقت ایک بہترین اور حاضر دماغ جرنیل کا کام یہ ہوتا ہے کہ فوراً پڑا ؤ تبدیل کرکے نقشہ جنگ کو بدل کر فتح و شکست کا رخ موڑ دے۔جنگ احد کے موقع پر جب مسلمانوں کے پا ؤ ں اکھڑ گئے۔اور ابن قمیہ نے یہ بھی مشہور کر دیا کہ (نغوذ باللہ) محمد اقتل ہوگئے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً نقشہ جنگ بدل د یا۔اور پہاڑی کے ایک محفوظ اور بلند مقام پر |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |