جنگ اُحد میں حضوراکرم ا نے اپنی تلوار بلند کرکے فرمایا: کون اس کا حق ادا کرے گا؟ سب صحابہ اس سعادت کے حصول کے لیے متوجہ ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ انتخاب حضرت ابو دجانہ رضی اللہ عنہ پر پڑی ۔ ابودجانہ رضی اللہ عنہ کو اس عزت افزائی نے بجا طور پر فخر کا موقع بخشا۔ آپ پہلوانوں کی طرح اکڑتے ہوئے صف سے میدان کی طرف نکلے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ کر فرمایا: یہ چال ناپسندیدہ ہے۔ لیکن اس وقت یہ بھی اللہ کو پسند ہے[1]۔ اسلامی جھنڈا: اسی طرح کا مظاہر ہ مکہ میں داخلے کے وقت لشکر اسلام نے کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ کے سپہ سالار ابو سفیان کو بلند مقام پر کھڑا کیا اور افواج اسلام کو حکم دیا کہ وہ بڑی آن بان سے اپنے جھنڈے بلند کیے سامنے سے باری باری گزریں۔ حالانکہ عام حالات میں یہ باتیں فخر و تکبر پر محمول کی جاتی ہیں۔ جھنڈے کوبلند رکھنا بھی افواج کے حوصلے بلند رکھتا ہے۔ فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا جھنڈا ایک بلند مقام پر گاڑنے کا حکم فرمایا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا قیس بن سعد انصاری اٹھائے ہوئے تھے[2]۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر پر حملہ کیا ۔ تو خیبر کا ایک مضبوط ترین قلعہ سرہونے میں نہ آتا تھا۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ میں کل جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر خیبر فتح ہوگا۔ چنانچہ دوسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کیا۔ جنہوں نے یہ قلعہ بھی سرکرلیا[3]۔ اسلام میں جھنڈے کی ابتدا غزوہ خیبر سے ہوئی۔ اور یہی وہ پہلا معرکہ ہے جس میںمسلمانوں نے کچھ علاقہ سرکیا تھا۔ اس سے پہلے کی جنگیں بیشتر مدافعانہ قسم کی تھیں۔ اس کے بعد ہر جنگ میں جھنڈا قومی شعار کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ (اسلام کے قوانین صلح وجنگ) |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |