Maktaba Wahhabi

204 - 268
ہیں۔ اس طرح امریکہ مسلمانوں کو انفرادی اور ملکی سطح پر ہر دو پلیٹ فارموں پر کمزور سے کمزور تر کرنا چاہتا ہے۔ وہ مسلمان جو کہ شہادت کی تمنا کے ساتھ میدانِ جنگ میں اترتے ہیں اور یہی چیز یہود و نصاریٰ کی نیندیں حرام کرنے کو کافی ہے۔ عراق پر قبضہ کرنا امریکہ کی منزل نہیں بلکہ منزل کے حصول کی طرف پہلا قدم ہے۔ اس جنگ میں امریکہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ جس طرح عراق کے عوام پر میزائل اور دوسرے ایٹمی ہتھیارات سے گولہ باری کر رہا ہے یہ انسانیت کے منہ پر بد نما داغ ہے۔ ان حملوں میں بچے‘ بوڑھے ‘ عورتیں اور نہتے عوام غرض کسی کی تمیز نہیں کی گئی۔ امریکہ جو کہ ایک مہذب قوم ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس کے تمام دعووں کا پول کھل گیا ہے۔ اس جنگ کا دینی ‘ دنیاوی اور اخلاقی غرض کسی طور پر بھی کوئی جواز نہیں۔ یہ ہیں وہ مقدس حقوق جن کی بنا پر جنگ کا آغاز ہوتا ہے اور مغربی اقوام کا تعامل انہیں جائز قرار دیتا ہے۔ اب دیکھئے اسلامی قانون مندرجہ بالا مقاصد میں کسی ایک مقصد کو جائز قرار نہیں دیتا اور ان اغراض کے تحت کی جانے والی جنگ کو فساد فی الارض قرار دیتا ہے۔ اور اسی فساد فی الارض یا ذاتی اغراض ومقاصد کے تحت لڑی جانے والی جنگوں کے خاتمہ کے لیے جہاد کو فرض قرار دیتا ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے۔ کہ اغراض ومقاصد جنگ کے لحاظ سے اسلامی قانون اور مغربی قانون آپس میں متصادم ہیں۔ جزیہ اور خراج کے بجائے اقتصادی تباہی: اسلام مفتوح قوم سے جزیہ وصول کرکے اس ملک کے دفاعی اخراجات کا خود ذمہ دار بنتا ہے۔ اس حفاظت میں قاصر رہے تو رقم واپس کردیتا ہے۔ جزیہ کی شرح کی تعین لوگوں کی مالی حالت دیکھ کر نرمی کا اسلوب اختیار کرتا ہے۔ وصولی میں جبر کا قائل نہیں اور مفتوح قوم کے معذور افرادسے جزیہ لینے کی بجائے بیت المال ان کے وظائف مقرر کرتا ہے۔ یہی صورت حال خراج کی ہے۔ اس کی شرح کی تعین زمین کی پیداوار کو ملحوظ رکھ کر نہایت واجبی شرح عائد کرتا ہے اور وصولی میں کسی طرح کے جبر کا روا دار نہیں۔ فصل کا نقصان ہونے کی صورت میں خراج لینے کی بجائے اس کی مدد کے لیے ہاتھ بڑھاتا ہے۔
Flag Counter