سکتا‘‘۔ انہی ’’اسباب‘‘ کو اسلام نے ختم کیا۔ اور انہی اسباب کے خاتمہ کی وجہ سے اسلام ہر دور میں پھیلتا رہا اور ہندوستان میں بھی پھیلا۔ اب یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوسکتا ہے کہ ان ہریجنوں نے ہندومت کی ذات پات کے اس انسانیت کش تقسیم سے تنگ آکر آخر اسلام ہی کیوں قبول کیا۔ کوئی دوسرا مذہب کیوں نہ قبول کر لیا۔ اس بات کا جواب نوائے وقت۳۱ / جولائی ۱۹۸۱ ء کی مندرجہ ذیل خبر سے آپ کو مل جائے گا۔ خبر کا عنوان ہے ’’ پانڈیچری میں ڈیڑھ ہزار برہمن مسلمان ہوگئے۔‘‘ ’’ پانڈیچری ۔ ۳۰ / جولائی (ن۔ا) ہریجنوں کے لیڈر مسٹر سی کرشنا مورتی نے مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد اخباری نمائندوں کو بتایا کہ عیسائی مذہب قبول کرنے سے سماجی حیثیت بلند نہیں ہوتی۔لیکن مسلمان ہونے سے ہمارا سماجی مرتبہ بڑھ جاتا ہے۔ہمارایہ فیصلہ حتمی ہے اور اس میں کوئی سیاسی مصلحت نہیں …واضح رہے کہ اس سے قبل تامل ناڈو کے موضع مینا کشی پورم میں ہریجنوں نے اجتماعی طور مذہب اسلام قبول کر لیا ہے‘‘[1]۔ (۲) قانونی مساوات: قانونی مساوات سے مراد یہ ہے کہ معاشرہ کا کوئی ممتاز سے ممتاز فرد حتٰی کہ صدر مملکت بھی قانون کی دسترس سے بالا تر نہیں ہوتا ۔ یہ ایک ایسا امتیاز ہے۔ جو اسلامی ریاست کے علاوہ اور کہیں پایا جانا ممکن نہیں۔ کیونکہ اس ریاست میں اقتدار اعلیٰ اللہ کی ذات ہے ۔ باقی سب لوگ ایک ہی سطح پر اس کے محکوم اور اطاعت گزار بندے۔ ایک دفعہ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو پیش کر کے یہ اعلان کر دیا۔ کہ ’’جس کسی نے مجھ سے کوئی بدلہ یا قصاص لینا ہو وہ آج لے سکتا ہے‘‘۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبیلہ قریش کی ذیلی شاخ کی ایک عورت فاطمہ مخزومی نے چوری کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس جرم کی سزا موقوف کرنے کی سفارش کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’پہلی امتوں کی ہلاکت کا سبب ہی یہ تھا کہ جب ان میں سے کوئی کمزور جرم کرتا تو اسے سزا دیتے اور اگر شریف وہی جرم کرتے تو ان کی سزا موقوف کر دی جاتی یہ تو فاطمہ مخزومی کی بات ہے۔ خدا کی قسم! اگر میری اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنھا بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا‘‘[2] ۔ |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |