رئیس اور پہلوان اس کے ہمراہ کیے اصطخر کی اس طرف جا کر اسلامی فوج کا مقابلہ کرے جب اسلامی فوجیں تسترپہنچیں تو سیاہ اپنے سرداروں کے ساتھ ان اطراف میں مقیم تھا۔ ایک دن اس نے تمام ہمراہیوں کو جمع کر کے کہا کہ ’’ ہم لوگ جو پہلے کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ (عرب) ہمارے ملک پر غالب آجائیں گے۔اس کی روز بروز تصدیق ہوتی جاتی ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ ہم لوگ خود اسلام قبول کرلیں‘‘۔چنانچہ اسی وقت سب کے سب مسلمان ہو گئے[1]۔ یہی صورت حال شام اور مصر کے اطراف میں بھی تھی۔ اور لوگ عہد فاروقی میں کثرت سے مسلمان ہوئے۔ جو کہ اسلام کی فیوض و برکات کی وجہ سے مسلمان ہوئے تھے۔ تلوار کے زور سے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے غلام کو بھی مسلمان نہ بنا سکے۔ دوسروں کو کیسے بنا سکتے تھے ؟ اسی معاشرتی مساوات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اسلام ذات پات میں تمیز کا قائل نہیں۔ نہ گورے کو کالے پر کچھ فوقیت ہے، نہ عربی کو عجمی پر بلال رضی اللہ عنہ حبشی کو امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ’’سیدنا‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ مسجد میں آقا و غلام گورے اور کالے، نچلی اور اونچی ذات والے، امیر اور غریب سب ایک ہی صف میں ایک ہی حیثیت سے کھڑے ہوتے ہیں۔یہ اسلام کو شرف حاصل رہا ہے کہ پہلے بھی اور آج بھی معاشرہ کا نچلے درجہ کا طبقہ، جسے اونچے درجے کا طبقہ عموماً دھتکار دیتا ہے، ہمیشہ اسلام کے دامن میں آکر پناہ لیتا رہا ہے۔ ابھی چند دنوں کی بات ہے۔ اخبارات میں ایک خبر جو اس طرح کے عنوان سے شائع ہوئی تھی:۔ ’’جنوبی بھارت میں اونچی ذات کے ہندو ؤ ں کے مظالم سے تنگ آکر ۱۳۰۰ نے اسلام قبول کر لیا‘‘[2]۔ بتائیے ان ہریجنوں کو کون سی تلوار نے اسلام لانے پر مجبور کیا تھا ؟ پھر ۵/ جولائی کو اسی اخبار نوائے وقت میں ہندوستان کی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی نے کہا تھا ’’مجھے تکلیف ان لوگوں کے اسلام لانے پر نہیں بلکہ اسباب پر ہے ؟ اور یہ ’’اسباب‘‘ جن پر وزیراعظم صاحبہ کو افسوس ہوا۔ وہ تو ان کے مذہب کا جزولاینفک ہیں۔ ہندومت برہمن کو تو بالاتر مخلوق سمجھتاہے لیکن شودر کو انسان بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ شودر برہمن کا پیدائشی غلام ہے۔ اور غلامی کا یہ پھندا کسی صورت اس کی گردن سے اتر نہیں |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |