باب دوم :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار پس منظر دنیا سے فتنہ و فساد ختم کر کے اللہ کا دین قائم کرنے کی ذمہ داری ہی حقیقتاً و ہ مقصد تھا جس کے لئے اللہ تعالیٰ مختلف اداوار میں انبیاء علیہم السلام کے مقدس گروہ کو وقتاً فوقتاً مبعوث فرماتا رہا ہے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو دنیا ظلم و جور سے بھر چکی تھی۔ جس کی تفصیل بیان کرنا خارج از بحث ہے۔ عرب کا وہ خاص علاقہ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے لوٹ مار اور قتل و غارت کی جولا ن گاہ بنا ہوا تھا۔ چونکہ عرب ایک بے آب و گیاہ علاقہ تھا لہذا یہاں کے اکثر وحشی قبائل کا پسندیدہ ذریعہ معاش تجارتی قافلوں کو لوٹ کر گزر اوقات کرنا تھا۔ ویسے تو یہ پیشہ ہی انسان کو دوسرے انسان کے بے دریغ قتل پر بیباک اور جری بنا دیتا ہے۔ تاہم ان میں کچھ اور بھی ایسے عقائد و نظریات شامل ہو گئے تھے جن کی بنا پر فتنہ و فساد اور انسانی خون کی ارزانی اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ اور وہ مختصراً درج ذیل ہیں: قبائل عرب کی وحشت و بربریت: عرب میں طوائف الملوکی یعنی قبائلی نظام رائج تھا۔ بات بات پر جھگڑنا ان کا قومی شعار بن چکا تھا۔ رقابت اور نسلی تفاخر ان جھگڑوں کو مستقل جنگوں کی شکل میں تبدیل کر دیتے تھے۔ علاوہ ازیں ان میں ’’ثار‘‘ کا عقیدہ راسخ ہو چکا تھا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ جب تک مقتول کے خون کا بدلہ نہ لیا جائے اس کی روح پرند ے کی شکل اختیار کر کے مسلسل چیخ و پکار کرتی رہتی ہے۔ کہ ’’میں پیاسی ہوں۔ میں پیاسی ہوں‘‘ اور یہ پیاس صرف قاتل یا اس کے قبیلہ کے کسی فرد کا خون بہانے سے ہی بجھ سکتی تھی۔ اس عقیدہ کے تحت اگر قبائل میں جنگ چھڑ جاتی تو بعض اوقات مسلسل صدیوں تک پھیل جاتی تھی۔ |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |