Maktaba Wahhabi

160 - 268
(۴) شام کی نماز ۳ رکعت ہی رہے گی۔ پہلی فوج دو رکعت امام کے ساتھ اداکرے گی اور دوسری ایک رکعت ۔ بقایا اکیلے پڑھ لیں۔ (۵) اگر جماعت کی فرصت نہ ملے۔ تو اکیلے پڑھنے کی بھی اجازت ہے۔ سواری سے اترنے کا موقع نہ ملے تو سواری پر ہی اشارہ سے پڑھ لی جائے۔ دورِ حاضر میں فوج کے مختلف شعبوں میں نماز اور قصر کے احکام مختلف ہوں گے۔ مثلاً ایک ہوائی جہاز کا پائلٹ محض اشاروں سے نماز ادا کرسکتا ہے۔ جب کہ اس جہاز میں سوار دوسرے فوجی اپنی جگہ پر بیٹھے ارکان نماز بھی ادا کرسکتے ہیں۔ اور ٹینک کے اندر بیٹھنے والے غالباً نماز با جماعت بھی ادا کرسکتے ہیں۔ غرض موقع و محل کی مناسبت سے نماز کی جو صورت بھی عملی طور پر ممکن ہو اسے ہی اختیار کرنا چاہیے لیکن کسی صورت میں بھی نماز کو ترک نہیں کیا جاسکتا۔ (۱۱) کھیتوں ‘باغات اور درختوں کی تباہ کاری کی ممانعت: بعض دفعہ دشمن کسی جنگی تدبیر یا فوجی مقصد کے لیے نہیں بلکہ محض دہشت پھیلانے کے لیے وسائل خوراک کو تباہ و برباد‘ اور شہری املاک کا نقصان کردیتا ہے۔ مکانات کو منہدم کرنا شروع کردیتا ہے۔ اس بے جا ضیاع اموال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمادیا۔ اب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ ہدایات درج کرتے ہیں۔ جو آپ نے موتۂ کی طرف لشکر روانہ کرتے وقت ارشاد فرمائیں۔ یہ دراصل میدان جنگ سے تعلق رکھنے والے جملہ احکام کا خلاصہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوج کو وداع کرتے ہوئے فرمایا۔’’پہلے ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دینا۔ اگر قبول کرلیں تو لڑنے کی ضرورت نہیں ‘‘۔ پھر حسب ذیل احکام دئیے: «اُوْصِیْکُمْ بِتَقْوَ ی اللّٰهِ وَلِمَنْ مَعَکُمْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ خَیْرًا اُغْزُوْا بِسْمِ اللِّٰه فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ کَفَرَ بِاللّٰهِ لَا تَغْدَرُوْا وَلَا تَقْتُلُوْا وَلِیْدًا وَلَا امْرَأةً وَلَا کَبِیْرًا فَانِیًا وَلَا مُنْعَزِلًا بِصَوْمَعَةٍ وَلَا تَقْرَبُوْا نَخْلًا وَلَا تَقْطَعُوْا شَجَرًا وَلَا تَهْدَ مُوْا بِنَاءً» (میں تمہیں وصیت کرتا ہوں (۱) اپنے اللہ کے ساتھ پرہیز گاری کی(۲) مسلمانوں کے ساتھ نیکی کرنے کی(۳) جو اللہ سے کفر کرے اس سے اللہ کے نام سے فی سبیل اللہ جہاد کی (۴) وعدہ شکنی نہ کرنا(۵) بچے‘ عورت‘ بوڑھے کھوسٹ اور گوشہ نشینوں کو قتل نہ کرنا (۶) درخت نہ کاٹنا اور نہ باغ
Flag Counter