میں گزری ۔ البتہ نپولین کی زندگی میں ایک مرتبہ ایسا واقعہ بھی پیش آگیا۔ جس کی تفصیل درج ذیل ہے:۔ اکتوبر ۱۸۱۳ء میں اتحادیوں نے نپولین کو لیپزگ (LAPIZG ) کے مقام پر فیصلہ کن شکست دی۔ جس کے نتیجہ میں جرمنی کی ریاستوں (جن کا نپولین نگران بنا ہوا تھا) سے اتحاد ٹوٹ گیا۔ ہالینڈ آزاد ہو گیا اور بویریا اتحاد یوں سے مل گیا۔ نپولین کو دریائے رائن عبور کرکے فرانس کی سرحد پر آنا پڑا۔ اب نپولین کے سامنے سب سے اہم مسئلہ یہ تھا کہ خود فرانس کی حفاظت کیسے ہو ؟ ایسے نازک حالات میں ۱۸۱۴ء میں اتحادیوں نے نپولین کو صلح کی پیشکش کی جسے فرینک فورٹ (FRANKFORT ) کی شرائط کہتے ہیں۔ اس پیشکش کی رُو سے فرانس کو اپنی اصلی اور قدرتی حدود کے اندر مقید رہنا پڑتا تھا۔ اتحادیوں نے یہ پیشکش کی تھی کہ فرانس کی سرحد ایک جانب کوہ ایلپس اور پائرنس (PYRENESS ) تک ہوگی اور دوسری جانب دریائے رائن تک۔ اگر نپولین ان شرائط کو مان لیتا تو یہ اس کی بہت بڑی کامیابی اور اس کے لیے نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھی۔ مگر اس وقت بھی اس کے سر پر فرانس کی وسیع سلطنت کا بھوت سوار تھا۔ لہذا اس نے ان ذلت آمیز شرائط کو ماننے سے انکار کر دیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اتحادیوں نے فرانس پر دھاوا بول دیا۔ نپولین نے گو ڈٹ کر مقابلہ کیا مگر چند ہفتوں کے بعد ہی اسے معلوم ہو گیا کو لڑائی بیکار ہے۔ دشمن کی فوجیں پیرس کے دروازوں تک پہنچ چکی تھیں لہٰذا ۶ اپریل ۱۸۱۴ء کو قصر شاہی سے ایک اعلان جاری کیا جس کی رُو سے وہ فرانسیسی تخت سے دست بردار ہو گیا۔ اور اتحادیوں نے اسے جزیرہ ایلیا میں بھیج دیا[1]۔ اگر اس وقت نپولین غرور و نخوت کے بجائے دور اندیشی سے کام لیتا تو اسے یہ بُرے دن دیکھنا نصیب نہ ہوتے۔ (۱۴) تربیت یافتہ جانشین: کسی جرنیل کی عظمت کا پہلو یہ بھی ہے کہ اپنے سالاروں کی تربیت کیسے کرتا ہے۔ اوراپنے بعد کتنے اور کیسے جانشین چھوڑ کر جاتا ہے ؟ اس لحاظ سے سکندر اعظم کو دیکھئے تو اس کے جانشینوں میں ہمیں صرف سلوکس کا نام نظر آتا ہے۔ جس نے ایشیا میں اپنی سلطنت کی بنیاد رکھی جس کو پائیداری نصیب نہ ہو سکی۔ چنگیز نے اپنے مفتوحہ علاقے اپنے چار بیٹوں میں تقسیم کر دیئے۔ چنگیز ہی کا ایک پوتا ہلاکو خاں تھا۔ جس نے بغداد کو فتح کرنے کے بعد وہ مظالم ڈھائے کہ |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |