ہوا۔ ایک گروہ یہ کہتا تھا کہ اب مقصد حاصل ہوچکا لہٰذا اب یہاں ڈیوٹی دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اب مال غنیمت کے اکٹھا کرنے کے لیے دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مل جانا چاہیے۔ دوسرا گروہ یہ کہتا تھا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے حالات کچھ بھی ہوں یہاں سے نہیں ٹلنا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کا بھی یہی فیصلہ تھا کہ یہاں سے ہٹنا نہیں چاہیے۔ چنانچہ اس تنازعہ میں صرف بارہ اصحاب امیر کا حکم مان کر وہیں رہے اور باقی۳۸ درّہ کو چھوڑ کر غنیمت لوٹنے میں مشغول ہوگئے۔ درّہ خالی دیکھ کر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ (جو اس وقت کفار کی طرف سے لڑرہے تھے) نے اس طرف سے بھر پور حملہ کیا اور مسلمانوں کی حاصل شدہ فتح شکست میں تبدیل ہوگئی۔ اس موقعہ پر درّہ چھوڑنے والے مسلمانوں نے دو غلطیاں کی تھیں۔ ایک تو اپنے غلط اجتہاد کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سرتابی کی حالانکہ حکم کے بعد اجتہاد کا کوئی حق باقی نہیں رہتا۔ دوسرے امیر لشکر حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تنازعہ بھی کیا اور ان کے حکم سے سرتابی بھی کی۔ قرآن کریم نے اس واقعہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: ﴿ وَلَقَدْ صَدَقَكُمُ اللّٰهُ وَعْدَهٗٓ اِذْ تَحُسُّوْنَھُمْ بِاِذْنِھٖ ۚ حَتّٰى اِذَا فَشِلْتُمْ وَ تَنَازَعْتُمْ فِي الْاَمْرِ وَعَصَيْتُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَآ اَرٰىكُمْ مَّا تُحِبُّوْنَ ۭ ﴾ (۳:۱۵۲) (اللہ تعالیٰ نے تو اپنا وعدہ (فتح) تم سے پورا کر ہی دیا جبکہ تم دشمن کو اس کے حکم سے تہ تیغ کررہے تھے۔ یہاں تک کہ تم نے نا مردی دکھلائی (یعنی درّہ چھوڑ دیا) اور معاملہ میں تنازعہ پیدا کردیا اور(امیر لشکر اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نافرمانی کی جب تم نے وہ چیز دیکھی جس کو تم چاہتے تھے (یعنی مال غنیمت) (۶) عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کے قتل کی ممانعت: دشمن کے لشکر میں اگر عورتیں یا بچے اور بوڑھے شامل ہوں اور معرکہ کارزار میں موجود ہوں تو بھی مسلمانوں کو یہ حکم ہے کہ ان پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے۔ ارشادنبوی ہے: (۱)«لَاتَقْتُلوْا اِمْرَأَةً وَلَا صَغِیْرًا وَلَا شَیْخًا فَانِیًا»[1] ( کسی عورت‘ بچے اور بوڑھے کو قتل نہ کرو۔ ) (۲) اور حضرت عبداللہ عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |