Maktaba Wahhabi

265 - 268
ریاست پر چڑھ کر آجائے اور سرحدوں پر یورش کرے یا سفارتی آداب کی خلاف ورزی کرے۔ یا مسلمانوں کو ان کے مذہبی فرائض سے روکے تو یہ سب ظلم اور فتنہ کی مختلف شکلیں ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی ملک اشاعت اسلا م میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے یا صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے ان پر مظالم ڈھاتا ہے تو اس طرح حالات جنگ پیدا ہوجاتے ہیں ۔ ان تصریحات سے یہ بات واضح ہوگئی ۔ کہ اسلام صرف مدافعانہ جنگ ہی کا قائل نہیں۔ بلکہ وہ ظلم وجور کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے خواہ یہ ملک کے اندر ہو یا باہر۔ اب اسے کوئی مصلحانہ جنگ کہہ لے یا جارحانہ جنگ ۔ اسلام نے بہرحال جنگ کرنے اور اس سے رک جانے کے اصول متعین کردئیے ہیں اور مسلمانوں کو انہیں اصولوں پر کاربند رہنا لازم ہے۔ (۴) پیغمبر اسلام ا پر اعتراضات کا جائزہ اسلام پر چند بڑے بڑے اعتراضات کا جائزہ لینے کے بعد اب ہم چند مزید اعتراضات کا جائزہ لیں گے جو پیغمبر اسلام پر کیے گئے ہیں:۔ (۱) لوٹ مار کا سبق: سب سے پہلے اور اہم اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تجارتی قافلوں کی ناکہ بندی کرتے اور انہیں لوٹنے کے لیے دستے روانہ کرتے رہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود مسلمانوں کو لوٹ مار کا سبق دیتے رہے۔ اس اعتراض کا جواب ہم مناسب مقام پر پیش کرچکے ہیں۔ تاہم قارئین کی سہولت کے لیے دوبارہ چند اشارات پیش کیے جاتے ہیں: (۱) اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد محض لوٹ مار سکھلانا تھا۔ تو قریش کے قافلہ ہی کی ناکہ بندی کیوں کی گئی ۔ تجارتی قافلے تو یمن سے بھی جاتے تھے اور نجد سے بھی پھر عراق اور شام کی طرف بھی آتے تھے۔ مدینہ سے بھی یہودیوں کے تجارتی قافلے جاتے تھے۔ اگر محض لوٹ مار کا مقصد ہوتا تو دوسرے قافلوں سے کیوں کبھی تعرض نہ کیا گیا۔ (۲) آپ نے کوئی ایسا دستہ روانہ نہیں کیا۔ جنہیں لوٹ مار کا حکم دیا گیا ہو۔ یا مسلمانوں نے کبھی قریش کے کسی تجارتی قافلہ کو لوٹا ہو۔ لے دے کر یہ سریہ نخلہ کا ایک واقعہ ایسا ملتا
Flag Counter