طے پائے ہوں ۔ اور ان کی مدت صلح عموماً دس سال ہوتی ہے۔ جب تک ایسے ممالک بغاوت یا بدعہدی نہ کریں ان سے جنگ کا کوئی امکان نہیں ۔ نہ ہی اس کی اجازت ہے۔ (۳) اس کے بعد جو ممالک بچ جائیں وہ فی الواقع ’’دارالحرب ‘‘ ہیں لیکن اس پر بھی ’’حالات جنگ‘ ‘ کا اطلاق نہیں ہوسکتا ۔ حالات جنگ اور چیز ہے‘ اور خطرہ جنگ اور چیز اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے آج کل روس اشتراکیت کا علمبردار ہے اور امریکہ جمہوریت اور سرمایہ کاری کا۔ یہ دونوں قسم کے نظریات چونکہ آپس میں ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔ لہٰذا ان دونوں ملکوں میں جنگ کا خطرہ ہر وقت موجود ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ عین ممکن ہے ۔ کہ ان دونوں ممالک میں ایک طویل مدت تک حالات جنگ پیدا نہ ہوں۔ یہی صورت حال پاکستان اور بھارت کی ہے۔ پاکستان دو قومی نظریہ کا علمبردار ہے اور بھارت ایک قومی نظریہ کا حامی ہے نظریات کے اس تضاد نے ہر وقت جنگ کا خطرہ پیدا کردیا ہے لیکن حالات جنگ مدتوں بعد پیدا ہوتے ہیں حالات جنگ صرف اس وقت پیدا ہوتے ہیں جب کوئی ملک اپنے حقوق سے تجاوز کرنا چاہتا ہے ۔ جو حریف ملک کے لیے ناگوار ہوتے ہیں ۔ مثلاً روس اپنا حق سمجھتا ہے کہ گرم پانی تک اس کی رسائی ہو۔ لہذا افغانستان ‘ پاکستان اور ایران وغیرہ پر اس کا تسلط قائم ہونا چاہیے۔ لیکن حریف ممالک روس کے اس ’’حق ‘‘ کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ روس نے افغانستان میں اپنا یہ حق استعمال کرنا شروع کردیا تو جنگ چھڑ گئی ۔ اور پاکستان اور ایران کے لیے حالات جنگ پیدا ہوگئے۔ مغربی اقوام کے نزدیک طاقت ہی سب سے بڑا حق ہے۔ ان کے نزدیک جنگ کے آغاز کے لیے جو مقدس حقوق جائز سمجھے گئے ہیں۔ان کا ذکر ہم پہلے کر آئے ہیں۔ انہی حقوق میں سے کسی ایک حق کا استعمال کرکے وہ حالات جنگ پیدا کردیتے ہیں۔ لیکن اسلام اس طرح کے حقوق کو ناجائز قرار دیتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے اس وقت تک حالا ت جنگ پیدا نہیں ہوسکتے جب تک ان صورتوں میں سے کوئی صورت پیدا نہ ہو۔ جن کی تفصیل باب چہارم میں پیش کی جا چکی ہے۔ اسلام میں لڑائی کے جو ازکاعام قانون ظلم اور فتنہ استحصال ہے۔ کوئی ملک اسلامی |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |