Maktaba Wahhabi

213 - 268
عورتوں، پادریوں، کاشتکاروں، تاجروں اور اسیرانِ جنگ کو قتل وغارت سے محفوظ رہنا چاہیے‘‘۔ یہ محض ایک سفارش تھی۔ جس کو فوجی گروہ نے قبول نہیں کیا۔ دوسو برس بعد تک یورپ نے اس میں کوئی ترقی نہیں کی۔ چنانچہ انیسویں صدی کے وسط میں ہندوستان کی جنگ آزادی میں انگریزی فوجوں نے ہولناک مظالم کیے جن کے تصور سے انسانی ضمیر کانپ اُٹھتا ہے۔ پھر رفتہ رفتہ یورپ نے وہی طریقہ اختیار کرلیاجو آج سے چودہ سال قبل اسلام نے پیش کیا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اسلام اس قانون کی پابندی کو لازمی قرار دیتا ہے۔ جبکہ مغرب آج بھی اسے محض ایک شریفانہ رعایت سمجھتا ہے۔ (۲) زخمی اور بیمار افراد کی نگہداشت: 1864ء میں سوئٹزر لینڈ کی حکومت نے جنیوا کے مقام پر ایک بین الاقوامی اجتماع منعقد کرکے بیماروں، زخمیوں اور معالجوں سے متعلق چند قوانین مرتب کیے ہیں جن کی توثیق جنیوا کی تیسری کانفرنس منعقدہ 1906ء میں جاکر ہوئی۔ یہ قوانین بھی، جنہیں مغربی اقوام نے بعد از خرابی بسیار اختیار کیا ہے۔ اسلامی قوانین کا چربہ معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن یہ سمجھوتہ بھی عملاً بیکارہی رہا کیونکہ پہلی جنگ عظیم میں فریقین نے ایک دوسرے کے ہسپتال جہاز سے بڑی بے دردی سے تباہ کیے۔ حالانکہ ان پر معاہدہ کے مطابق سرخ صلیب کے نشان بھی لگے ہوئے تھے۔ ہیگ کانفرنس کے مختلف سمجھوتوں کا اصل صرف یہ ہے۔ کہ جن لوگوں کو بیماری یا زخم نے جنگ لڑنے سے معذور کردیا ہے۔ ان کو علاج سے بے توجہی کے ذریعہ مزید ایذا دینا یا انہیں قتل کردینا انسانیت کے خلاف ہے۔ بالخصوص جبکہ ان کی ایذا رسانی اور قتل سے مقاصدِ جنگ کے حصول میں بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اب دیکھئے اسلام نے اپنی فوجوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنے حریف کے اچھے یا بُرے طرز عمل سے بے پروا ہوکر اپنے ذاتی فرض کے طور پر بیماروں ‘زخمیوں اور ایسے تمام لوگوں پر رحم و کرم سے کام لیں جو زخمیوں کی طرح معذور ہوں۔ اور یہ حکم اس وقت دیا گیا۔ جب کہ دشمن اس طرح کے رحم کے تصور سے بھی نا آشنا تھا۔ (۳) اسیرانِ جنگ: جنگی قیدیوں کے متعلق بھی گروٹیوس نے ہی پہلی دفعہ یہ سفارش کی تھی کہ انہیں قتل
Flag Counter