(۳) سریہ جموم ربیع الاخر ۶ھ ۱۰قیدی (۴) سریہ عیص صفر ۷ھ ۹قیدی حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ اور عتبہ بن اسید رضی اللہ عنہ ابو بصیر) کے جتھے نے تجارتی قافلہ پر حملہ کرکے قیدی بنائے اور غنیمت حاصل کی۔ پھر حکم نبوی کے مطابق سب کچھ واپس کردیا۔ (۵) سریہ حسمی جمادی الآخر ۷ھ ۱۰۰قیدی (۶) غزوہ حنین شوال ۸ھ ۶۰۰۰قیدی آزاد کردینے کے علاوہ قیدیوں کو کپڑے بھی عطا فرمائے۔ (۷) سریہ عُیَییْنہ محرم ۹ ۶۳قیدی ۔قبیلہ بنو تمیم نے بغاوت کی تھی (۸) سریہ بنو طے۹ھ دختر حاتم مسماۃ سنانہ اور اس کی پوری قوم آپ نے دختر حاتم کو باکرام رخصت فرمایا اور اس کی وجہ سے ساری قوم کو چھوڑ دیا۔ کل تعداد ۶۲۰۲ کم از کم (۳)فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے: جنگ بدر۲ ھ کے قیدیوں کا فدیہ لیا گیا۔ اس کے بعد فدیہ کی بھی صورت پیش نہیں آئی۔ عموماً ازراہ احسان ہی چھوڑ دیا جاتا رہا۔ فدیہ لے کر چھوڑ نے کی داستان بھی عجیب ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ رحیمی اور عفو درگزر کا ایک زندہ ثبوت ہے۔ کسی قیدی نے کہا۔ میرے پاس فدیہ دینے کو کوئی چیز نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا۔’’پڑھنا لکھنا جانتے ہو؟ ‘‘ قیدی نے اثبات میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اچھا دس مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دو۔ یہی تمھارا فدیہ ہے۔ کسی نے کہا میں خود مکہ جاکر فدیہ بھیج سکتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر بھی اعتبار کرکے اسے چھوڑ دیا۔ کسی نے کہا ۔ میرے پاس تو نہ کوئی رقم ہے اور نہ میں پڑھنا لکھنا جانتا ہوں اور غریب آدمی ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دوبارہ جنگ میں حصہ نہ لینے کے وعدہ پر چھوڑ دیا اور اس کے وعدہ پر اعتبار کرلیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنھا کا نکاح ابو العاص سے ہوا تھا جو اس جنگ میں گرفتار ہوا ۔ حضرت زینب رضی اللہ عنھانے اس کے فدیہ میں اپنے گلے کا وہ ہار بھیجا جو اس کی والدہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھانے اسے دیا تھا۔ ہار کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی غمگسار ، اطاعت گزار اور با وفا بیوی کی یاد تازہ ہوگئی۔ آنسو ڈبڈبا آئے۔ ایسے شدید جذبات کی رو میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں کیا۔ کہ اپنے اختیار سے کام لیکر ابو العاص کو ویسے ہی چھوڑ دیا جائے اور ہار |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |