Maktaba Wahhabi

266 - 268
ہے۔ جسے بھیجا تو تفتیش احوال کے لیے گیا تھا مگر اس دستہ کے امیر عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک تجارتی قافلہ آگیا تو آپ نے از خود اس پر حملہ کر کے اسے لوٹا۔ پھر جب مال غنیمت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کرنے سے انکار کردیا اور عبداللہ بن جحش صکو سخت سرزنش بھی کی کہ اس نے وہ کام کیوں کیا جس کا اسے حکم نہیں دیا گیا تھا۔ (اس کی تفصیل اپنے مقام پر گزر چکی ہے-) (۳) دشمن کے اسباب ثرو ت کی ناکہ بندی کرکے اس پر کاری ضرب لگانا جنگی تدابیر میں سے ایک اہم تدبیر ہے۔ جسے ہر ملک اور ہر قوم استعمال کرتی ہے۔ اور کامیاب جرنیل کی ایک دانشمندی کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ کامیاب طریقہ سے ناکہ بندی کرکے دشمن کی اصل قوت (سرمایہ) پر کاری ضرب لگائے تو پھر اسلام اور بانی اسلام ہی کو مطعون کرنے کا کیا جواز ہے؟ (۴) عتبہ بن اسید رضی اللہ عنہ نے فی الواقع مقام عیص پر ایک جتھہ بنا کر قریش کے تجارتی قافلوں کو لوٹا بھی تھا۔ لیکن یہ صورت حال صلح حدیبیہ کی شرط نمبر۲ کے نتیجہ میں پیش آئی تھی ۔ جس کی ذمہ داری سے آپ بری الذمہ تھے۔ یہی وجہ تھی کہ قریش نے خودمدینہ جا کر حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی تھی کہ شرط نمبر۲ کو منسوخ قرار دیا جائے چنانچہ بعد میں قریش کو اس ’’ مصیبت‘‘ سے نجات مل گئی[1]۔ (۲) دوسرا اعتراض ‘خفیہ سازشیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دوسرا اہم اعتراض یہ ہے کہ آپ اپنے دشمنوں کو خفیہ سازشوں کے ذریعہ مکروفریب سے کام لے کر ختم کرادیتے تھے حالانکہ وہ ’’معاہد‘‘ تھے۔ مثال کے طورپر کعب بن اشرف اور ابو رافع کا نام پیش کیا جاتا ہے۔ اس اعتراض کا جواب بھی زیر عنوان گوریلا جنگ (باب نمبر۲) میں دیا جا چکا ہے۔ مختصر اشارات دوبارہ درج کیے جاتے ہیں۔ (۱) یہ لوگ معاہد ضرور تھے ۔ لیکن بغاوت کے جرم نے ان کے معاہد کی حیثیت کو ختم کردیا ۔
Flag Counter