Maktaba Wahhabi

267 - 268
بغاوت کے علاوہ اور کئی طرح کے جرائم میں ملوث تھے۔ مسلمانوں کے دشمنوں کو برانگیختہ کرنا۔ مسلمانوں کی تضحیک اور تمسخر اُڑانا۔ بانی اسلام کو گالیاں دینا ان لوگوں کا شعار تھا۔ ان حرکات سے معاہدہ از خود ختم ہوجاتا ہے۔ دوسرے جرائم کے علاوہ اکیلا جرم بغاوت ہی ایسا ہے جسے کوئی حکومت معاف نہیں کرتی۔ (۲) آپ کے سب سے بڑے دشمن ابو جہل‘ ابو سفیان‘ امیہ بن خلف وغیرہ تھے۔ جنہوں نے مدینہ میں بھی پانچ سال تک یلغار کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چین نہ لینے دیا۔ لیکن انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خفیہ طریقہ سے ٹھکانے لگانے کے متعلق کبھی نہ سوچا۔ وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ کھلے دشمن تھے۔ لیکن یہود کے مندرجہ بالا افراد زیر زمین سازشیں کرتے اور کھلے میدان میں آنے سے احتراز کرتے تھے۔ ایسے لوگوں کی شرارتوں سے نجات کا ذریعہ یہی ہوتا ہے۔ کہ انہیں جانباز فورس کے سپرد کردیا جائے۔ جو جس طرح بھی بن پڑے ان کو ٹھکانے لگادیں ۔ ہر حکومت کے لیے ایسی کاروائی ناگزیر ہوتی ہے۔ اور اس میں ہر طرح کے فکرو تدبر کو جائز سمجھا جاتا ہے۔ ایسے گوریلا سپاہیوں اوراسی طرح جاسوسوں کے لیے عام قانون یہ ہے کہ اگر وہ گرفتار ہوجائیں تو انہیں ’’اسیران جنگ‘‘ کی سی مراعات حاصل نہیں ہوتیں۔ اور اگر مارے جائیں تو متعلقہ حکومت اس کی باز پرس نہیں کرسکتی۔ (۳) یہ لوگ معاہد ضرور تھے ۔ مگر ان کے انفرادی جرائم کی سزا پوری قوم کو نہیں دی جاسکتی تھی۔ کہ ان سے کھلم کھلا اعلان جنگ کیا جاتا۔ جبکہ ان کی قوم انہیں ایسی حرکات سے منع کرنے سے قاصر ہو۔ لہٰذا اس انفرادی اقدام کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔ (۴) یہ الزام بھی سرا سر غلط ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سازشیں تیار کرکے جانبازوں کو مکروفریب سکھا کر انہیں اس مہم پر آمادہ کیا تھا ۔ کعب بن اشرف کے قتل کے لیے محمد بن مسلم نے خود اپنی خدمات پیش کیں اور کہا کہ’’ اجازت دیں جو چاہوں کہہ لوں ‘‘۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دے دی۔ اس اجازت سے خفیہ سازشیں تیار کرنے یا مکروفریب کے سکھانے کا پہلو کیسے نکل سکتا ہے؟ اس طرح ابو رافع کو ٹھکانے لگانے کے لیے عبداللہ بن عتیق رضی اللہ عنہ نے خود اپنی خدمات پیش کی
Flag Counter