Maktaba Wahhabi

262 - 268
﴿ وَهُمْ يَنْظُرُوْنَ Č۝ۭ ﴾ (۸:۵، ۶) بعد تم سے جھگڑنے لگے گویا موت کی طرف دھکیلے جانے لگے ہیں۔ اور وہ موت کو سامنے دیکھ رہے ہیں۔) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوتا ہے کہ: [يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَي الْقِتَالِ] (۸:۶۵) (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! مومنوں کو جہاد کی ترغیب دو۔) ان تمام آیات سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ کم از کم جنگ بدر تک کے اکثر مسلمان جنگ سے نفرت کرتے تھے۔ اور اسے ناگوار سمجھتے تھے۔ یہی لوگ اسلام کا ابتدائی اور قیمتی سرمایہ تھے۔ اگر یہ لوگ فطرتاً جنگ جو ہوتے تو ان احکامات و ارشادات کی کیا ضرورت تھی؟ اصل بات یہی ہے۔ اسلام کے یہ ابتدائی جاں نثار صلح جو اور امن پسند تھے۔ ظلم و فساد کے خاتمہ کے لیے جب ان پر جنگ جیسا ’’ناگوار فریضہ ‘‘ عائد کر دیا گیا تو انہوں نے اسے طوعاً و کرہاً سر انجام دیا۔ جارحانہ اقدامات؟ اس بحث کا دوسرا پہلو یہ ہے۔ کہ جنگ جو لوگ ہمیشہ وہی کہلائے جا سکتے ہیں۔ جو جارحانہ اقدامات کریں۔ اس معیار پر غور کرنے کے لیے ہمیں دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگوں کے اسباب پر سرسری نظر ڈالنا ہوگی۔ (۱) غزو ۂ بدر، احد اور احزاب خالص مدافعانہ جنگیں تھیں۔ (۲) غزو ۂ خیبر اور غزو ۂ مکہ دشمن کی طرف سے عہد شکنی کی وجہ سے پیش آئیں۔ (۳) سریہ موتہ اور غزو ۂ تبوک، سفیر کے قتل اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے پیش آئیں۔ (۴) غزو ۂ حنین( اوطاس اور طائف) میں دشمن نے خود للکارا تھا۔ اور مسلمانوں کو جس بے سروسامانی کی حالت میں یہ جنگ لڑنا پڑی اس کی کیفیت بھی ملاحظہ فرما لیجئے: فتح مکہ کے فوراً بعد ہوازن اور ثقیف کے جنگجو اور تیر انداز قبائل نے مقابلہ کی ٹھانی اور ایک بڑے لشکر کو حنین کے مقام پر لا ڈالا۔ عورتیں اور بچے بھی ہمراہ لے آئے کہ کسی کو بھاگنے کا خیال ہی پیدا نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مجبوراًجن حالات میں یہ جنگ لڑنا پڑی وہ یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ربیعہ سے ۔۔۔۔۔ جو ابوجہل کے ماں جائے بھائی تھے۔۔۔ تین ہزار درہم قرض لیے[1]
Flag Counter