ہے۔ مستامن کے کچھ حقوق وفرائض معین ہوتے ہیں۔ مثلاً جاسوسی اور بغاوت کے سوا کوئی جرم اس کی امان کو ختم نہیں کرسکتا۔ البتہ اس کے جرم کی سزا ملکی قانون کے مطابق دی جائے گی جہاں وہ رہائش پذیر ہے۔ آج کل حکومتیں جو دوسرے ملکوں کے بعض افراد کے لیے visaجاری کرتی ہیں۔ ان کی حقیقت بھی ’’امان ہی سے ملتی جلتی ہے۔ یہ ویزا سسٹم تو دو مسلم ریاستوں میں بھی چلتا ہے۔ جبکہ امان صرف مسلم اور غیر مسلم کے درمیان ہوتی ہے۔ (۶) اظہار اسلام یا کوئی علامت دیکھنے پر: اگر حریف مقابلہ پر آکر زبان سے یا کنایتاً اسلام کا اظہار کردے۔ تو جنگ سے دستبردار ہوجانا چاہیے:۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:۔ ﴿ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَتَبَيَّنُوْا وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰٓى اِلَيْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا ۚ ﴾(۴/۹۴) (اے ایمان والو۔ جب تم اللہ کی راہ میں (جنگ کے لیے) نکل کھڑے ہو تو تحقیق سے کام لیا کرو اور جو شخص تم سے سلام علیکم کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مسلمان نہیں ہو۔) اب دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل واقعات ملاحظہ فرمائیے:۔ (۱) حضرت انس ص فرماتے ہیں: «کَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اِذَا غَزَاقَوْمًا لَمْ یَغْزُ حتّٰی یُصْبِحَ فَاِنْ سَمِعَ اَذَا نًا اَمْسَكَ وَاِنْ لَمْ یَسْمَعْ اَذًا نًا اَغَا رَ»[1] (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی قوم پر جہاد کرتے تو صبح تک حملہ نہ کرتے پھر اگر (صبح کی) اذان سُن لیتے تو حملہ کرنے سے رُک جاتے اور اگر نہ سنتے تو حملہ آور ہوجاتے۔) (۲) ابن عصام المزنی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک سریہ پر روانہ کیا اور یہ ہدایت فرمائی کہ: «اِذَا رَأَیْتُمْ مَسْجِدًا وَسَمِعْتُمْ مُؤَذّنًا فَلَا تَقْتُلُوْا اَحَدًا»[2] (جب تم مسجد دیکھ لو یا اذان کی آواز سُن لو۔ تو پھر کسی شخص کو قتل نہ کرو۔) |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |