Maktaba Wahhabi

180 - 665
کھانے پینے میں بے حد احتیاط کرنا چاہیے۔ لیکن مولانا کا معاملہ یہ تھا کہ وہ پشاور سے لے کر آسام تک اور ہمالہ سے لے کر مدراس تک تبلیغی دورے کرتے تھے۔ ان حالات میں پرہیز اور آرام اور احتیاط کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔بالآخر مرض نے ان کے جسم پر قبضہ کر لیا اور بدن زخمی ہوگیا۔ ڈاکٹر سید محمد فرید اس وقت دربھنگا اسپتال میں تھے، وہ تقریباً روزانہ رحیم آباد آتے اور معائنہ کر کے زخموں پر مرحم پٹی کرتے۔ بعض اطبا کی خدمات بھی حاصل تھیں۔ مگر مرض روز بروز بلکہ لمحہ بہ لمحہ بڑھتا گیا۔عقیدت مندوں اور شاگردوں کو پتا چلا تو وہ بھی ملک کے مختلف حصوں سے تیمارداری کے لیے رحیم آباد حاضر ہونے لگے۔ وفات بالآخر وہ وقت آگیا۔ جس کی آمد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو (لَقِّنُوا موْتَاكُمْ لاَ إِله إِلاَّ اللّٰه ) کا حکم دیا ہے۔چنانچہ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے لوگ (لاَ إِله إِلاَّ اللّٰه ) کا ورد کرنے لگے۔ خود مولانا کے لب مبارک بھی حرکت کر رہے تھے، قریب کھڑے ایک شخص نے منہ کے قریب کان لگائے تو کہا سید الاستغفار کا ورد فرما رہے ہیں۔ یہ سن کر لوگ خاموش ہو گئے۔ کم و بیش 65سال کی عمر پا کر علم و عمل کا یہ خورشید انور، علماء کا رہبر، عوام کا ہادی، ہر شخص کا دلی خیر خواہ، تبلیغ حدیث کا خوگر، اخلاص کا پیکر سید الاستغفار کا ورد کرتا ہوا، ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہوگیا اور اپنے مالک حقیقی سے جا ملا۔إِنَّا للّٰه وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ یہ اتوار کا دن تھا اور قمری حساب سے تاریخ تھی4۔جمادی الاخریٰ1336؁ ھ اور عیسوی حساب سے 17۔ مارچ 1918؁ء۔۔۔۔![1] جنازہ اور تدفین حضرت مرحوم کے جنازے میں دور و نزدیک اور جماعت اور غیر جماعت کے ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ مولانا مرحوم و مغفور نے اپنی زندگی ہی میں قبرستان کے پہلے دروازے کے سامنے تدفین کے لیے جگہ تجویز کر رکھی تھی، لیکن آخری وقت میں وصیت فرمائی کہ پہلی جگہ پر تدفین کے متعلق میرا ارادہ
Flag Counter