Maktaba Wahhabi

184 - 665
تحصیل علم کے لیے سفر جب عمر کی کچھ منزلیں طے کر چکے اور مختلف علوم متداولہ کی بعض کتابیں قرب و جواب کے اساتذہ سے پڑھ لیں تو اپنے مسکن سے باہر قدم نکالا۔ اس زمانے میں مبارک پور سے کچھ فاصلے پردو مشہور مدرسے تھے۔ایک جون پور میں احناف کا مدرسہ تھا جو وہاں کے رئیس منشی امام بخش نے مولانا سخاوت علی کی تحریک پر 1267 ؁ ھ میں اس کے صدر مدرس مولانا محمد یوسف فرنگی محلی کو مقرر کیا گیا مدرس بنائے گئے تھے۔ دوسرا مدرسہ چشمہ رحمت تھا جو غازی پور میں مولانا رحمت اللہ فرنگی محلی نے 1869ء میں شہر کے وسط میں پانچ روپے ماہوار کرائے کا مکان لے کر جاری کیا تھا۔ تھوڑے عرصے میں اس مدرسے نے شہرت حاصل کر لی تھی اور یوپی اور بہار کے دور دراز علاقوں سے شائقین علم آکر اس میں تحصیل علم کرنے لگے تھے۔ مدرسہ چشمہ رحمت میں عربی، فارسی، اُردو کے علاوہ ہندی سنسکرت اور انگریزی کی بھی ابتدائی تعلیم دی جاتی تھی۔۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں مسلمان طلبا کے علاوہ ہندو طلبا بھی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ اس کے اساتذہ کی عالی قدر جماعت میں حضرت مولانا عبداللہ غازی پوری رحمۃ اللہ علیہ جیسے اکابر اصحاب علم شامل تھے جو طلبا کو تفسیر، حدیث، فقہ، ادب اور معانی و بیان کی کتابیں پڑھاتے تھے۔ یعنی منقولات کی تعلیم کا پورا انتظام تھا۔ حضرت مولانا مبارک پوری پانچ سال یہاں حضرت مولانا عبداللہ غازی پوری رحمۃ اللہ علیہ سے حصول علم میں مشغول رہے۔ حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے والد مکرم حافظ الرحیم مرحوم و مغفور بھی مدرسہ چشمہ رحمت سے فیض یاب تھے۔ حضرت میاں صاحب کی خدمت میں حضرت مولانا مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ نے مدرسہ چشمہ رحمت میں حضرت حافظ مولانا عبداللہ غازی پوری رحمۃ اللہ علیہ سے خوب استفادہ کیا۔ وہ بھی لائق شاگرد کی صلاحیتوں سے بہت متاثر تھے اور ان پر بے حد شفقت فرماتے تھے۔اسی تاثر و شفقت کا نتیجہ تھا کہ حضرت استاذ نے علم کے اس بے پناہ شائق شاگرد کو حضرت میاں سید نذیر حسین رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں دہلی جانے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ انھوں نے دہلی کے لیے شدر حال کیا اور حضرت میاں صاحب کے حلقہ درس میں شامل ہوئے۔
Flag Counter