Maktaba Wahhabi

108 - 702
سے۔ اور اسی پر عمل ہے بہت سے صحابہ اور تابعین اور محدثین کا،جیسا کہ جامع ترمذی میں مسطور ہے۔[1] باقی رہا حکم اس کا پس بعض قائل فرضیت اور بعض قائل استحباب کے ہیں ۔ جیسا کہ امام ابوعیسیٰ ترمذی اپنی جامع میں فر ماتے ہیں : ’’قد اختلف أھل العلم في القراء ۃ خلف الإمام، فرأی أکثر أھل العلم من أصحاب النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم والتابعین ومن بعدھم القراء ۃ خلف الإمام، وبہ یقول مالک وابن المبارک والشافعي وأحمد وإسحاق، و روي عن عبد اللّٰه بن المبارک أنہ قال: أنا أقرأ خلف الإمام والناس یقرؤن، إلا قوم من الکوفیین، وأری من لم یقرأ صلاتہ جائزۃ، وشدد قوم من أھل العلم في ترک قراء ۃ فاتحۃ الکتاب وإن کان خلف الإمام، فقالوا: لا تجزیٔ صلاۃ إلا بقراء ۃ فاتحۃ الکتاب وحدہ کان أوخلف الإمام، وذھبوا إلی ما روی عبادۃ بن الصامت عن النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم ، وقرأ عبادۃ بن الصامت بعد النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم خلف الإمام‘‘[2] انتھی [قراء تِ خلف الامام کے سلسلے میں اہل علم کے درمیان اختلاف رہا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر صحابہ، تابعین اور تبع تابعین قراء تِ خلف الامام کے موید رہے ہیں اور یہی قول مالک، ابن المبارک، شافعی، احمد اور اسحاق کا ہے۔ عبداللہ بن المبارک کے واسطے سے روایت بیان کی جاتی ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں قراء تِ خلف الامام کرتا ہوں اور دوسرے لوگ بھی کرتے ہیں ، سوائے کوفیوں کی ایک قوم کے، اور میری رائے یہ ہے کہ جو قراء ت نہیں کرتا اس کی نماز جائز ہے۔ بعض اہل علم نے سورۃ الفاتحہ کی قراء ت کے ترک کرنے والے پر شدید نکتہ چینی کی ہے، اگرچہ وہ امام کے پیچھے ہی نماز ادا کررہاہو۔ ان لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ سورہ فاتحہ کی قراء ت کے بغیر نماز نہیں ہوتی ہے، چاہے وہ اکیلے نماز پڑھ رہا ہو یا امام کے پیچھے۔ یہ لوگ اس روایت کے قائل ہیں جو عبادہ بن صامت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے بیان کی ہے اور عبادہ بن صامت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امام کے پیچھے قراء ت کی ہے۔ ختم شد]
Flag Counter