Maktaba Wahhabi

128 - 702
رات کے۔ فقہاے سبعہ نے بھی تین رکعت وتر کو اختیار کیا ہے اور حنفیہ تو اس پر اجماع نقل کرتے ہیں ۔ اگر مخالفت کی بنا پر اجماع نہ بھی تسلیم کیا جائے تو کم از کم جمہور کا مسلک تو ہوگا۔ اگر آپ کہیں کہ تین رکعت مع الکراہت جائز ہے، جیسا کہ امام شوکانی نے بیان کیا ہے تو پھر اس کا جواب کیا ہے کہ اکثر لوگوں نے اس کو اختیار کر لیا ہے؟ جواب شافی سے مطمئن فرما دیں ۔ جواب : تین رکعت بلا کراہت جائز ہے، کیونکہ صحابہ کی ایک جماعت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تین رکعت وتر روایت کی ہے۔ مثلاً حضرت علی، ابن عباس، عمران بن حصین، عبدالرحمن بن ابزی، حضرت عائشہ، ابی بن کعب، ابو ایوب، انس بن مالک، عبد اللہ ابی اوفی، عبد اللہ بن عمرو، عبداللہ بن مسعود، عبد الرحمن بن سبرہ، نعمان بن بشیر، ابو ہریرہ، عبد اللہ بن سرجس رضی اللہ عنہم ۔ یہ پندرہ صحابہ کرام ہیں ، جنھوں نے تین رکعت وتر کی روایت کی ہے اور ان کی روایات صحاح ستہ، موطا امام مالک، دارمی، قیام اللیل مروزی، طبرانی، ابو یعلی، حاکم، دارقطنی، بیہقی ،ابن حبان، صحیح ابن سکن میں مروی ہیں ۔[1]گو ان میں سے بعض بہت کمزور بھی ہیں ، لیکن ایک کو دوسری سے تقویت حاصل ہوتی ہے۔ ان تمام روایت کو نقل کرنا موجب طوالت ہے۔ پھر اتنی حدیثیں ہوتے ہوئے تین رکعت کو مکروہ کیسے کہا جا سکتا ہے؟ ابن حبان، دار قطنی، محمد بن نصر مروزی اور حاکم نے جو تین رکعات کی ممانعت روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین رکعت وتر نہ پڑھا کرو کہ مغرب کے ساتھ مشابہت کرو، بلکہ پانچ یا سات رکعت وتر پڑھا کرو۔‘‘[2] حاکم، دارقطنی، حافظ ز ین الدین عراقی، حافظ ابن حجر، شیخ مجد الدین فیروز آبادی اور ابن قیم نے کہا ہے کہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں ، یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔ ہم اس کی تطبیق یو ں دیتے ہیں کہ تین رکعت وتر پڑھنے سے جو ممانعت کی گئی ہے، وہ دو تشہد
Flag Counter