Maktaba Wahhabi

129 - 702
سے ہے، جس سے وتر مغرب کی نماز کے مشابہ ہوجاتی ہے۔ اگر ایک ہی تشہد سے تین رکعت وتر پڑھیں تو پھر مکروہ نہیں ہیں ۔ چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے یہی تطبیق دی ہے۔[1]اس کی تائید حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث سے ہوتی ہے، جس کو حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تین وتر پڑھا کرتے تھے اور آخری رکعت میں تشہد کرتے۔[2] حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کو زرقانی نے مواہب لدنیہ کی آٹھویں جلد میں اور محمد بن اسماعیل الامیر نے زادالمعاد کے حاشیے پر لکھا ہے اور سلف صالحین کی ایک جماعت کا یہی مسلک تھا۔ عطا بھی تین رکعت وتر ایک تشہد سے پڑھتے۔[3] ابن حجر عسقلانی،قسطلانی اور زرقانی نے اپنی کتابوں میں اس کی خوب تفصیل بیان کی ہے۔ بعض صحابہ سے جو تین رکعت وتر کی نہی ثابت ہے، وہ بھی اسی پر محمول ہے کہ تین رکعت دو تشہد سے نہ پڑھے جائیں کہ اس سے مغرب کی نماز کے ساتھ مشابہت پیدا ہوتی ہے اور ایک تشہد سے تین رکعت وتر کو وہ مکروہ نہیں سمجھتے۔ مثلاً حضرت عائشہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے تین رکعت وتر کی مخالفت بھی ثابت ہے[4] اور تین رکعت ایک تشہد سے روایت بھی کرتے ہیں ۔ مغرب کے ساتھ مشابہت بھی اس صورت میں ہوتی ہے کہ تین رکعت وتر دو سلام سے پڑھے جائیں کہ پہلے دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دے اور پھر ایک رکعت پڑھ کر سلام پھیرے۔ اس صورت میں تین رکعت وتر دو تشہد سے ہوجائیں گے ۔چنانچہ بخاری میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یہی طریقہ مروی ہے۔[5] حاصل کلام یہ کہ بالکل مغرب کی طرح تین رکعت وتر دو تشہد اور ایک سلام سے منع ہیں اور ایک تشہد یا دوسلام سے ثابت ہیں ۔ باقی رہا امام شوکانی کا قول کہ ’’تین رکعت وتر جائز تو ہیں ، لیکن کراہت سے، اور بہتر یہ ہے کہ تین رکعت نہ پڑھے۔‘‘[6] یہ قول صحیح نہیں ہے، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بکثرت تین رکعت وتر پڑھنا ثابت ہے۔ گو آپ سے پانچ، سات، نو، گیارہ رکعت بھی ثابت ہیں ۔ اور پھر اس صورت میں بعض
Flag Counter