Maktaba Wahhabi

130 - 702
احادیث کا ترک بھی لازم آتا ہے۔ اگر تطبیق کی کوئی صورت ممکن ہو تو تطبیق ہی دینا چاہیے، نہ کہ بعض احادیث صحیحہ کو چھوڑ دیاجائے۔ اور اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ بعض صحابہ سے بالکل مغرب کی نماز کی طرح ایک سلام دو تشہد سے تین رکعت وتر ثابت ہیں تو اس کا جواب یہ ہے ان کو نہی مذکو ر نہیں پہنچی، لہٰذا وہ اس میں معذور ہیں ۔ اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک فعل یا قول ثابت ہوجائے تو اس کے خلاف کسی صحابی یا تابعی کے قول و فعل کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے؟ اور کسی ایک بھی حدیث سے ثابت نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تین رکعت وتر ایک سلام دو تشہد سے پڑھے ہوں ۔ اور دارقطنی کی حدیث سے جو ثابت ہوتا ہے، وہ حدیث ضعیف ہے۔[1] اس کو مرفوعاً صرف یحییٰ بن زکریا نے روایت کیا ہے اور وہ ضعیف ہے۔ بیہقی نے کہا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ یہ حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے۔ سفیان ثوری اور عبد اللہ بن نمیر نے اس کو موقوفاً روایت کیا ہے۔[2] اور اسی طرح دار قطنی کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث ہے، جس کو ابن جوزی نے موضوع بتایا ہے۔ابن معین نے کہا اسماعیل بن مکی کوئی شے نہیں ہے۔ نسائی نے اسے متروک بتایا ہے۔[3] اور فقہا ئے سبعہ سے جو تین رکعت وتر ایک سلام سے مروی ہے،[4] وہ ہم تسلیم کرتے ہیں ، لیکن ان میں سے کسی ایک سے بھی دو تشہد ثابت نہیں ہیں ۔ اور ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ دو صورتوں میں تین رکعت وتر ثابت ہیں ۔ یا تو ایک تشہد اور ایک سلام سے پڑھے جائیں اور یا پھر دو سلام اور دو تشہد سے پڑھے جائیں اور فقہا ئے سبعہ نے پہلی صورت کو اختیار کیا ہے اور وہ بھی صحیح ہے۔ شیخ سلام اللہ حنفی نے محلی شرح موطأ میں امام احمد کا مذہب نقل کیا ہے کہ وہ ایک رکعت وتر کو ترجیح دیتے تھے اور تین رکعت ایک سلام اور ایک تشہد سے جائز اور ایک سلا م دو تشہد سے مکروہ کہتے تھے۔ باقی رہا طحاوی کا یہ کہنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تو ایک رکعت سے لے کر گیارہ رکعت تک وترثابت ہیں ، لیکن بعد میں تین رکعت وتر پر اجماع ہوگیا۔[5] بڑے تعجب کی بات ہے۔ یہ اجماع کب ہوا تھا؟ کہاں ہوا تھا؟ کن لوگوں نے کیا تھا ؟ صحابہ اور تابعین سے بکثرت ایک رکعت وتر پڑھنا ثابت ہے۔
Flag Counter