Maktaba Wahhabi

131 - 702
چنانچہ حافظ زین الدین عراقی لکھتے ہیں : ’’خلفائے اربعہ، سعد بن ابی وقاص، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، ابو موسیٰ اشعری، ابو الدرداء، حذیفہ، ابن عمر، ابن عباس، معاویہ، تمیم داری، ابو ایوب انصاری، ابوہریرہ، فضالہ بن عبید، عبداللہ بن زبیر، اور معاذ بن حارث القاری رضی اللہ عنہم سب ایک رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔ اور تابعین میں سے سالم بن عبد اللہ بن عمر، عبداللہ بن عیاش بن ابی ربیعہ، حسن بصری، محمد بن سیرین، عطا بن ابی رباح، عقبہ بن عبد الغافر، سعید بن جبیر، نافع بن جبیر، جابر بن زید، زہری، ربیعہ بن عبدالرحمن رحمہم اللہ وغیرہ ایک رکعت وتر کے قائل ہیں ۔ اور ائمہ میں سے امام شافعی، اوزاعی، احمد، اسحاق، ابوثور، داود، ابن حزم رحمہم اللہ سب ایک رکعت وتر کے قائل ہیں ۔‘‘ امام شوکانی رحمہ اللہ نے اسی طرح نقل کیا ہے۔[1] اور ابن ابی شیبہ نے حسن بصری سے جو تین رکعت پر اجماع نقل کیا ہے،[2]وہ ضعیف ہے، کیونکہ عمرو بن عبید، حسن بصری رحمہ اللہ پر جھوٹ بولا کرتا تھا۔ زیلعی نے کہا ہے کہ عمرو بن عبید متکلم فیہ ہے۔[3] علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں کہا ہے کہ عمرو بن عبید معتزلی اور قدری تھا۔ ابن معین نے کہا: اس کی حدیث نہیں لکھنی چاہیے۔ نسائی نے کہا: متروک الحدیث ہے۔ ابن حبان نے کہا: یہ پہلے بڑا پرہیز گار تھا، پھر یہ معتزلی ہوگیا اور حسن بصری کی مجلس سے نکل گیا۔ صحا بہ کو گالیاں دینے لگا اور حدیث میں جھوٹ بولنے لگا۔[4] سطور بالا سے معلوم ہوا کہ حسن بصری سے جو تین رکعت وتر پر عمر و بن عبید نے اجماع نقل کیا ہے، وہ ساقط الاعتبار ہے۔ اور حسن بصری سے اجماع کیسے نقل کیا جا سکتا ہے جب کہ محمد بن سیرین، جو ایک سچے تابعی ہیں ، وہ خود روایت کرتے ہیں کہ صحابہ پانچ رکعت وتر بھی پڑھتے اور تین رکعت بھی اور ایک رکعت بھی اور ہر ایک کو درست سمجھتے تھے۔[5] حررہ العبد الضعیف الراجي إلی رحمۃ ربہ اللطیف: أبو الطیب محمد المدعو بشمس الحق۔ عفي عنہ۔ العظیم آبادي۔
Flag Counter