Maktaba Wahhabi

17 - 702
عہدِ رسالت میں اور ا س کے بعد بہت سے صحابہ کرام نے اپنے اجتہاد سے بعض مشکل دینی مسائل کے بارے میں فتاویٰ صادر فرمائے۔ علامہ ابن حزم (م۴۵۶ھ)نے ایسے ایک سو بیالیس (۱۴۲) صحابہ اور بیس (۲۰) صحابیات کا ذکر کیا ہے، جن سے فتاویٰ منقول ہیں ،[1] اور انھیں فتاویٰ کی کثرت و قلت کے اعتبار سے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔ سب سے زیادہ فتاویٰ جن صحابہ سے منقول ہیں ، وہ بالترتیب یہ سات ہیں : حضرت عائشہ، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن مسعو د، حضرت ابن عمر، حضرت زید بن ثابت اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم۔ دوسرے حصے میں بیس (۲۰) ایسے صحابہ ہیں ، جن میں سے ہر ایک کے فتاویٰ کا ایک مختصر مجموعہ تیار کیا جا سکتا ہے ۔ باقی اور لوگوں سے زیادہ سے زیادہ ایک دو مسئلے منقول ہیں ۔ ان سب کے فتاوی بھی اگر جمع کیے جائیں تو ایک چھوٹا سا مجموعہ بنے گا۔ کچھ علما نے بعض صحابہ کرام کے فتاویٰ و مسائل جمع کرنے کی طرف توجہ دی تھی، چنانچہ ابو بکر محمد بن موسیٰ بن یعقوب بن مامون نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے فتاویٰ بیس حصوں میں جمع کیے تھے۔[2] تقی الدین سبکی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے فتاویٰ کاایک مجموعہ تیارکیا تھا۔[3] مگر یہ دونوں کتابیں دستبردِ زمانہ سے محفوظ نہ رہیں ۔ عصر حاضر میں اس طرف دوبارہ توجہ ہوئی ہے۔ اب تک حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عباس اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے فقہی مجموعے شائع ہوچکے ہیں ۔ ’’موسوعۃ فقہ السلف‘‘ کے نام سے بھی بہت سے صحابہ و تابعین کے آرا و مسائل کا مجموعہ مکہ مکرمہ سے کئی سال قبل چھپا تھا، جو نامکمل سہی، لیکن پھر بھی اہل علم اورعام قارئین کے لیے مفیدہے۔ عہدِ صحابہ میں فتاویٰ کا سلسلہ زبانی اور تحریری دونوں طریقوں سے جاری رہا۔ مدینہ، مکہ، کوفہ، بصرہ، شام اور مصر ہر جگہ لوگ مشکل مسائل کے سلسلے میں بعض جلیل القدر صحابہ کی طرف رجو ع کرتے
Flag Counter