Maktaba Wahhabi

18 - 702
تھے، جو وہاں مسندِ فتویٰ پر متمکن ہوتے ۔ یہ سلسلہ تقریباً پہلی صدی کے اخیر تک جاری رہا۔ پھر تابعین اور تبع تابعین کا دور شروع ہوتا ہے۔ اس دور میں منصبِ افتا اجلہ تابعین و تبع تابعین کے سپرد رہا۔ ان میں سے بعض تو ایسے ہیں ، جو صحابہ کرام کی موجودگی میں بھی فتویٰ دیتے تھے، مثلاً سعید بن المسیب اور سعید بن جبیر وغیرہ۔ علامہ ابن حزم نے ہرعلاقے میں عہد بہ عہد تمام مفتیوں کے نام اپنی کتاب میں ذکر کیے ہیں ،[1] جن کی تفصیل یہاں طوالت کی موجب ہوگی۔ مختصراً اتنا ذکر کردینا کافی ہے کہ مدینے میں بعض صحابہ (جیسے حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابن عمر اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم وغیرہ) کے تربیت یافتہ سات فقہا (جنھیں فقہاے سبعہ کہا جاتا ہے) مشہورہوئے۔یہ سعید بن المسیب، عروۃ بن زبیر، قاسم بن محمدبن ابی بکر صدیق، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود، حارثہ بن زید بن ثابت، ابوبکر بن عبد الرحمٰن اور سلیمان بن یسار رحمہم اللہ ہیں ۔ پھر ان کا سلسلہ زہری اور ربیعہ بن عبدالرحمٰن سے گزرتا ہوا امام مالک اور ان کے تلامذہ تک پہنچتا ہے۔ مکے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے تلامذہ فتاویٰ صادر کرتے تھے، جیسے عطاء، طائوس، مجاہد اور عکرمہ رحمہم اللہ وغیرہ ۔ ان کے بعدسفیان بن عینیہ رحمہ اللہ سے ہوتا ہوا یہ سلسلہ امام شافعی اور ان کے شاگردوں تک منتہی ہوتا ہے… کوفے میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے تربیت پانے والے بزرگ منصبِ افتا پر فائز تھے، جن میں علقمہ اور قاضی شریح کے نام ممتاز ہیں ۔ ان کے بعد ان کے شاگرد ابراہیم نخعی پھر حماد بن ابی سلیمان اور ان کے بعد امام ابوحنیفہ اور ان کے تلامذہ نے یہ فریضہ انجام دیا۔ بصرہ میں حسن بصری، ابن سیرین پھر قتادہ اور ان کے بعد حماد بن سلمہ، حماد بن زید اور معمر بن راشد مشہور ہوئے… شام میں ابو ادریس خولانی پھر مکحول اور ان کے بعد امام اوزاعی اور ان کے تلامذہ نے یہ منصب سنبھالا… مصر میں یزید بن ابی حبیب اور ان کے بعد امام لیث بن سعد اپنے اپنے زمانے کے مفتی تھے … ان کے علاوہ بغداد اور دیگر شہروں میں بہت سے علما فتویٰ دیتے رہے۔ ان میں امام ابن المبارک، امام احمد، امام اسحاق بن راہویہ، امام ابو ثور، امام داود ظاہری اور ابن جریر طبری وغیرہ شامل ہیں ۔
Flag Counter