Maktaba Wahhabi

188 - 702
من سعی في طاعۃ اللّٰه تعالی وسبیل الخیرات، و قال في البحر: ولا یخفی أن قید الفقراء لا بد منہ علی الوجوہ کلھا‘‘[1] انتھی [اور فی سبیل اللہ سے مراد ابویوسف کے نزدیک غزوات میں شرکت کرنے والے ہیں اور محمد کے نزدیک حج کے لیے رخت سفر باندھنے والے ہیں ۔ کہا گیا ہے کہ اس سے مراد طلبا ہیں ۔ فتاویٰ ظہیریہ میں اسی پر اقتصار کیا گیا ہے۔ بدائع میں اس کی تفسیر ہے کہ تمام تقرب الٰہی کے کام اس میں شامل ہیں ۔ اس طور سے اس میں ہر وہ سعی کرنے والا داخل ہوگا، جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لیے ہو اور خیر کے راستے میں ہو اور یہ چیز مخفی نہیں ہے کہ تمام صورتوں میں اس کو فقرا کے ساتھ مقید یا مختص ضرور کیا جائے گا] اور ’’البنایۃ في شرح الہدایۃ‘‘ میں ہے : ’’وفي المرغیناني: وقیل: { وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ} طلبۃ العلم‘‘[2] انتھی [ اور مرغینانی میں ہے: کہا گیا ہے کہ فی سبیل اللہ سے مراد طلبہ ہیں ۔ ختم شد] پس جن لوگوں نے فی سبیل اللہ کو اپنے عموم پر رکھا ہے یعنی سوائے ان مصارف سبعہ مذکورہ اور کل امور خیر کو مراد لیا ہے، جس میں رضائے حق تعالیٰ مقصود ہو اور کسی حدیث مرفوع صحیح یا اثر صحابہ کی مخالفت لازم نہیں آوے، کلام اس کا اقرب الی الصواب واوفق الی لفظ القرآن ہے اور کل اصناف ثمانیہ میں تملیک کا تحقق نہیں ہے۔ پس شرط تملیک لگا کر اور اس کو رکن قرار دے کر بنائے مسجد وغیرہ کو مصرف زکوٰۃ قرار نہیں دینا غیر صحیح ہے۔ بلکہ جس طرح مجاہد غازی فی سبیل اللہ کو مال زکوٰۃ اس غرض سے دیاجاتا ہے کہ وہ امور متعلق غزوہ میں اس کو صرف کرے اور وہ اس کا محل و مصرف قرار دیا گیا ہے اور محض اس کی ذاتی منفعت کی غرض سے وہ مال اس کو نہیں دیا جاتا ہے، پس اسی طرح مہتممان مدارس علوم دینیہ کو اموال زکوٰۃ مفروضہ سے دینا بایں غرض کہ وہ انفاق طلبہ و دیگر مصارف مدرسہ میں صرف کریں یا کتب دینیہ خرید کر حوالہ کریں کہ اس میں طلبہ پڑھیں ، بلاشک جائز ہو سکتا ہے اور محل ومصرف زکوٰۃ قرار دیا جا سکتا ہے، اور تحت عموم قولہ تعالی {وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ} داخل ہو سکتا ہے۔ ایک فائدہ جلیلہ متعلق اسی مسئلہ کے یہ ہے جو ’’سبل السلام شرح بلوغ المرام‘‘ میں ہے:
Flag Counter