Maktaba Wahhabi

189 - 702
’’الغارم تحل لہ الصدقۃ، وإن کان غنیا، وکذلک الغازي تحل لہ أن یتجھز من الزکاۃ، وإن کان غنیا، لأنہ ساع في سبیل اللّٰه ۔ قال الشارح: ویلحق بہ من کان قائما بمصلحۃ عامۃ من مصالح المسلمین کالقضاء والإفتاء والتدریس، وإن کان غنیا، و أدخل أبوعبیدۃ من کان في مصلحۃ عامۃ في العاملین، وأشار إلیہ البخاري حیث قال: باب رزق الحاکم والعاملین علیھا۔ وأراد بالرزق ما یرزقہ الإمام من بیت المال ممن یقوم بمصالح المسلمین، کالقضاء و التدریس، فلہ الأخذ من الزکاۃ فیما یقوم بہ مدۃ القیام بالمصلحۃ، وإن کان غنیا۔ قال الطبري: إنہ ذھب الجمھور إلی جواز أخذ القاضي الأجرۃ علی الحکم، لأنہ یشغلہ الحکم من القیام بمصالحہ، غیر أن طائفۃ من السلف کرھوا ذلک، و لم یحرموہ۔ وقالت طائفۃ: أخذ الرزق علی القضاء إن کانت جھۃ الأخذ من الحلال کان جائز إجماعا، ومن ترکہ فإنما ترکہ تورعا‘‘[1] [غارم کے لیے صدقہ حلال ہے، گرچہ وہ مال دار ہو۔ اسی طرح غازی کے لیے حلال ہے کہ زکوٰۃ کی رقم سے اس کے لیے انتظام کیا جائے، گرچہ وہ غنی ہو، کیونکہ وہ اللہ کی راہ میں سعی کرنے والا ہے۔ شارح نے کہا ہے کہ یہی حکم اس سے بھی ملحق کیا جائے گا جو مسلمانوں کے عام مصالح کے کام انجام دے رہا ہو، جیسے قضا ،افتا اور تدریس، گرچہ وہ غنی ہو۔ ابو عبید نے اس شخص کو بھی شامل کیا ہے جو عاملین کے مصالح کے کام انجام دے رہا ہو۔ اسی کی جانب بخاری نے اشارہ کیا ہے اور کہا ہے: ’’باب رزق الحاکم والعاملین علیھا‘‘ یعنی حاکم اور عاملین کے رزق کا بیان۔ رزق سے مراد ان کے نزدیک وہ ہے جو امام بیت المال سے اسے دیتا ہے، جو مسلمانوں کے مصالح کے کام انجام دیتا ہو، جیسے قضا اور تدریس، تو اس کو زکوۃ کی رقم سے لینا جائز ہے، اس کام کے عوض اس مخصوص مدت میں جس میں وہ کام انجام دے رہا ہے، اگرچہ وہ غنی ہو۔ طبری
Flag Counter