Maktaba Wahhabi

191 - 702
کریمہ: { اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ} [المائدۃ: ۵۵] [(مسلمانوں !) تمھارا دوست خود اللہ ہے] کی تفسیر میں سند اس طرح لکھی ہے: ’’یحییٰ بن عبد الحمید الحماني عن قیس بن الربیع عن الأعمش عن عبایۃ بن ربعي عن ابن عباس عن أبي ذر‘‘ دریافت طلب یہ ہے کہ یہ سند کس وجہ سے ساقط ہے؟ کیا درمیان کا کوئی راوی ساقط ہو گیا ہے یا اور کچھ معنی ’’ساقط‘‘ کے ہیں ؟ اور عبایہ بن ربعی کی روایت ابن عباس سے صحیح ہے یا نہیں ؟ اور کتب احادیث میں ہے یا نہیں ؟ اور کیا ان کا ترجمہ ہے؟ بحوالہ کتب جواب تحریر فرمائیے۔ جواب : بیشک یہ روایت تصدق انگشتری کی بہت سی کتابوں میں مذکور ہے، لیکن یہ روایت مرفوعاً سند صحیح سے مروی نہیں ہے، بلکہ ضعیف الاسناد ہے۔ اسی واسطے حافظ ابن حجر نے اس حدیث کے بارے میں ’’ساقط‘‘ لکھا ہے اور ’’ساقط‘‘ سے مراد حافظ ا بن حجر کی یہ نہیں ہے کہ اس سند میں کوئی راوی ساقط ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ سند اس حدیث کی ضعیف اور ساقط الاعتبار ہے۔ اور ’’ساقط‘‘ کا اطلاق رواۃ ضعفاء پر بھی ہوا کرتا ہے۔ حافظ ذہبی نے مقدمہ میزان الاعتدال میں لکھا ہے: ’’وأردی عبارۃ الجرح: دجال کذاب أو وضاع، ثم متہم بالکذب، ثم متروک وذاھب الحدیث وھالک وساقط، ثم واہ بمرۃ‘‘[1]انتھی مختصرا [اور جرح کی عبارت کے سب سے سخت الفاظ دجال، کذاب یا وضاع ہیں ،پھر جھوٹ (کذب) سے متہم، پھر متروک، ذاہب الحدیث، ہالک اور ساقط ہیں ۔ پھر واہ بمرہ ہیں ] اور عبایہ بن ربعی، جن سے اعمش روایت کرتے ہیں ، وہ بہت ضعیف ہیں ۔ حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال میں لکھا ہے : ’’عبایۃ بن ربعي من غلاۃ الشیعۃ۔ وقال العلاء بن المبارک: سمعت أبا بکر بن عباس یقول للأعمش: أنت حین تحدث عن موسی عن عبایۃ فذکرہ، فقال: واللّٰه ما رویتہ إلا علی وجہ الاستھزاء‘‘[2] انتھی
Flag Counter