Maktaba Wahhabi

202 - 702
أحمد بن أبي بکر البوصیری تلمیذ الحافظ ابن حجر في کتاب زوائد ابن ماجہ علی الکتب الخمسۃ: سندہ صحیح‘‘[1] [مسند احمد، سنن ابوداود، سنن ابن ماجہ اور سنن دار قطنی میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک دوشیزہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے کہا کہ اس کے باپ نے اس کی شادی اس کی مرضی کے خلاف کردی ہے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اختیار دیا کہ وہ چاہے تو اس نکاح کو برقرار رکھے اور چاہے تو انکار کردے۔ یہ حدیث سند کے اعتبار سے قوی ہے، اس میں کوئی علت نہیں ہے، جیسا کہ میں نے سنن ابو داود کی شرح ’’عون المعبود‘‘ میں اس کی تحقیق کی ہے۔ نیز سنن ابن ماجہ، نسائی اور احمد نے عبداللہ بن بریدہ سے روایت کی ہے اور انھوں نے اپنے والد سے کہ ایک نوجوان لڑکی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا کہ میرے والد نے میری شادی اپنے بھائی کے لڑکے سے کر دی ہے، تاکہ وہ اپنی پست حالت کو بلند کرسکے۔ راوی کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کو اختیار دے دیا۔ تولڑکی نے کہا کہ میرے ساتھ میرے باپ نے جو کیا میں اس پر راضی ہوں ، مگرمیں تو صرف یہ چاہتی تھی کہ خواتین کو یہ بتا دوں کہ ان کے اولیا کو اس بارے میں زور زبردستی کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ ابن ماجہ کی حدیث کی سند صحیح ہے اور نسائی کی سند حسن ہے۔ شوکانی نے نیل الاوطارمیں لکھا ہے کہ ابن ماجہ نے اس کی تخریج صحیح کے رجال کے واسطے سے کی ہے۔ علامہ احمد بن ابو بکر بوصیری، جو حافظ ابن حجر کے شاگرد ہیں ، نے کتاب ’’زوائد ابن ماجہ علی الکتب الخمسۃ‘‘ میں کہا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے] ان روایات صحیحہ سے ثابت ہوا کہ صرف عدم استئمار و عدم استئذان مفسد و مبطل نکاح نہیں ہے، بلکہ نکاح صحیح ہوجاتا ہے اور اس کے جواز و فسخ کا اختیار عورت کو ہے۔ چوتھا استدلال صحت نکاح نابالغہ پر اس حدیث سے ہے: ’’عن ابن عباس رضی اللّٰه عنہما قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم : الثیب أحق بنفسھا من ولیھا، والبکر تستأذن في نفسھا، وإذنھا صماتھا‘‘[2] (رواہ مسلم و أصحاب السنن)
Flag Counter