Maktaba Wahhabi

203 - 702
[ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ثیب اپنے ولی کے مقابلے میں بذات خود زیادہ حقدار ہے اور باکرہ سے بھی اجازت طلب کی جائے اور اس کی خاموشی اس کی اجازت ہوگی۔‘‘ اس کی روایت مسلم اور اصحاب السنن نے کی ہے] اس حدیث سے ائمہ مالک و شافعی و احمد و لیث و ابن ابی لیلیٰ و اسحاق بن راہویہ نے اس امر پر احتجاج کیا ہے کہ باپ بغیر اذن حاصل کیے ہوئے لڑکی کا نکاح کر دے سکتا ہے اور یہ احتجاج نہایت صحیح اور قابل تسلیم ہے۔ وإن ردہ العلامۃ الشوکاني۔[1] [اگرچہ علامہ شوکانی نے اس کی تردید کی ہے] وجہ استدلال یہ ہے کہ ایک حدیث میں یہ وارد ہے: ’’لا نکاح إلا بولي‘‘[2] [ولی کی اجازت کے بغیر نکاح درست نہیں ہے] اور ایک روایت میں یوں ہے: ’’أیما امرأۃ نکحت بغیر إذن ولیھا فنکاحھا باطل۔۔۔ الخ‘‘[3] [جو کوئی عورت بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو اس کا نکاح باطل ہے] اور پھر روایت مذکورہ ابن عباس میں یہ لفظ ہے: ’’الثیب أحق بنفسھا من ولیھا، والبکر تستأذن في نفسھا‘‘[4] [ثیب اپنے ولی کے مقابلے میں بذات خود زیادہ حقدار ہے اور باکرہ سے اجازت لی جائے گی] پس ان روایات کو جمع کرنے سے دو بات ثابت ہوئیں ۔ ایک یہ کہ عورتوں کے نکاح و انکاح میں ولی کو بھی حق حاصل ہے اور عورت کو بھی حق حاصل ہے۔ نہ عورت بغیر اذن و اطلاعِ ولی کے اپنا نکاح آپ کرلینے کی مجاز ہے کہ فتنہ و فساد کا دروازہ کھل جاوے اور نہ ولی کو خلاف مرضی اور اجازت عورت کے نکاح کر دینے کا حق ہے کہ ظلم و تعدی کا راستہ جاری ہو جاوے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ یہ دونوں حق، یعنی عورت کا حق اور ولی کا حق ثیب اور بکر میں یکساں اور مساوی نہیں ہے، بلکہ فرق ہے۔ اور وہ فرق یہ ہے کہ ثیب میں ولی کا حق کم ہے اور خود عورت ثیبہ کا حق زیادہ ہے، یعنی نکاح کا کل معاملہ عورت ثیبہ کے اختیار میں ہے، لیکن ولی کو علم و
Flag Counter