Maktaba Wahhabi

204 - 702
اطلاع ہو جانا ضرور ہے، بخلاف بکر کے کہ اس میں ولی کا حق زیادہ ہے اور عورت بکر کا حق کم ہے ، یعنی نکاح کا کل معاملہ ولی کے متعلق ہے، عورت بکر کو صرف علم و اطلاع ہو جانا کافی ہے۔ یہ اس صورت میں ہے کہ عورت اور اس کے ولی کے منشا میں اختلاف نہ ہو۔ اور بصورت اختلاف ولی کو حق جبر نہیں ہے، نہ ثیب پر، نہ باکرہ پر۔ اور جب باکرہ کے انکاح میں احقیت ولی کو ہے اور اس کا سب معاملہ اس کے ہاتھ میں ہے تو اگر ولی نے عقدِ نکاح بغیر استئذان اس کے کر دیا تو عقد صحیح ہوگیا۔ رہا حکم استئذان اور عورت کو اطلاع اس کی، وہ بعد نکاح کے رخصتی کے یا خلوت کے وقت ہو ہی جاوے گی۔ اس وقت اگر وہ ساکت رہی تو نکاح باقی رہے گا اور اگر انکار کیا تو نکاح فسخ ہوجاوے گا۔ بخلاف ثیب کے کہ اگر اس نے اپنے ا ختیار سے نکاح کرلیا اور ولی سے اذن نہیں لیا تو رخصتی یا خلوت کے وقت ممکن ہے کہ ولی کو اس کی اطلاع بھی نہ ہوتی، تو اس صورت میں ولی کے اذن کا حکم بالکل مفقود ہوجا وے گا جو انسداد فتنہ کی غرض سے امرضروری قرار دیا گیا تھا۔ الحاصل ثیب کو اپنے نکاح کے معاملہ میں ولی سے زیادہ حق ہے، مگر ولی کو علم و اطلاع ہو جانا ضروری ہے۔ اور باکرہ کے نکاح میں اس کے ولی کو زیادہ حق ہے کہ دیانتاً جس سے نکاح کردینا لڑکی کے حق میں بہتر سمجھے کردے۔ اور جب بالغہ باکرہ کے نکاح میں ولی کو زیادہ حق ہے تو نابالغہ کے حق میں ولی کو پورا حق بدرجہ اولیٰ حاصل ہے، مگر یہ ضرور ہے کہ لڑکی اس سے کارہ اور ناخوش نہ ہو اور کراہت و ناخوشی کا اعتبار لڑکی کو شعور و علم و اطلاع ہونے کے وقت سے ہے۔ اگر لڑکی وقت نکاح کے بالغہ ہے اور اس وقت اس کو علم و اطلاع بھی ہوئی تو اسی وقت کی ناراضی و کراہت اس کی قابل اعتبار و سبب فسخ نکاح ہوگی ۔اور وقت نکاح اگر وہ نابالغہ ہے تو جب وہ بالغ ہو اور اس کو شعور ہو اور نکاح پر مطلع ہو، اس وقت اس کو اختیار ہوگا کہ نکاح باقی رکھے یا فسخ کر دے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت مذکورہ بالا: (( لا تنکح الأیم حتی تستأمر، ولا تنکح البکرحتی تستأذن )) سے اگر یہ شبہ کیا جائے کہ بغیر اذن بکر کے اس کا نکاح صحیح نہیں ہوتا ہے اور نابالغہ میں صلاحیت اذن کی نہیں ہے، اس لیے تا وقت بلوغ اس کا نکاح کر دینا درست نہیں ہے تو یہ شبہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ بہت سے واقعات احادیث سے ایسے ثابت ہیں کہ عورت کا نکاح بغیر اذن بلکہ خلاف مرضی اس کے ولی نے کردیا اور اس نکاح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باطل نہیں فرمایا، بلکہ عورت کو
Flag Counter