Maktaba Wahhabi

206 - 702
اجازت دیتی ہے یا نہیں کہ عورت مذکورہ اپنی قرابت میں کسی اور آدمی کو اپنے نکاح کا ولی بنا کر کسی دین دار شخص سے اپنا نکاح پڑھوا لے، اور باپ کے ڈر سے اعلان عام نہ ہوسکے، اور ایسے جلسے میں نکاح ہو جس میں ایک مر د حاضر ہے جو کہ بیوہ مذکورہ کا داماد بھی اور خالہ کا بیٹا بھی ہے، اور اسی کو عورت نے اپنے نکاح کا ولی بنایا، اور قاضی بھی، اور دو عورتیں حاضر ہیں ،تو ایسا نکاح شرعاً صحیح ہے یا نہیں ؟ جواب : { اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِِ} [یوسف: ۴۰] [حکم توصرف اللہ ہی کا ہے] معلوم کر نا چاہیے کہ در صورت مذکورہ سوال شریعتِ اسلام اجازت دیتی ہے کہ عورت مذکورہ اپنی قرابت مند سے ایک مر د صالح اپنے نکاح کا ولی بنا کر کے دین دار شخص سے اپنا نکاح پڑھوالے اور ایسا نکاح جو سوال مذکورہ ہے، شرعاً صحیح و سنت ہے۔ تفصیل اس مسئلہ کی یہ ہے۔ شرط إذن الولي في النکاح [نکاح میں ولی کی اجازت شرط ہے] میں تین مذہب ہیں : اول مذہب احناف کا ، مسلک ان کا یہ ہے کہ ولی کی صحت نکاح کے لیے شرط نہیں ہے، عورت باکرہ ہو یا ثیبہ ہو، بلکہ عورت خود اپنا نکاح بلا اذن ولی کے کرسکتی ہے، مگر یہ مسلک بالکل ضعیف ہے اور ادلہ صحیحہ اس کے خلاف پر قائم ہیں ۔ دوسرا مسلک امام شافعی اور امام احمد و اکثر محدثین ہے کہ اذن ولی صحتِ نکاح کے لیے شرط ہے اور عورت باکرہ ہو یا ثبیہ ہو، عورت کو اختیار نہیں کہ بغیر ولایت کے اپنا نکاح کسی سے کرے۔ قال اللّٰه تبارک و تعالی: {وَاَنکِحُوْا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ} [النور: ۳۲] [ تم میں سے جو مرد عورت بے نکاح کے ہوں ، ان کا نکاح کردو ] پس یہاں پر خطاب ہے اولیاء کو ،کہ تم بے خاوند والی عورتوں کا نکاح کر دو۔ ’’وعن أبي بردۃ بن أبي موسی عن أبیہ قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰهُ علیه وسلم : (( لا نکاح إلا بولي )) رواہ الإمام أحمد وأصحاب السنن الأربعۃ، وصححہ علي بن المدیني وعبد الرحمن بن مھدي والترمذي والبیھقي وغیر واحد من الحفاظ، ورواہ أبو یعلی الموصلي في مسندہ عن جابر مرفوعاً، قال الحافظ الضیاء: رجالہ کلھم ثقات، و قال الحاکم: و قد صحت الروایۃ فیہ عن أزواج النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم عائشۃ و أم سلمۃ وزینب بنت
Flag Counter