Maktaba Wahhabi

207 - 702
جحش قال: و في الباب عن علي وابن عباس، ثم سرد ثلاثین صحابیا، والحدیث دل علی أنہ لا یصح النکاح إلا بولي‘‘ کذا في سبل السلام شرح بلوغ المرام۔[1] [ابوبردہ بن ابوموسیٰ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولی کے بغیر نکاح نہیں ہے۔ اس کی روایت امام احمد اور سنن اربعہ کے اصحاب نے کی ہے اور علی بن مدینی، عبد الرحمان بن مہدی ، ترمذی ، بیہقی اور متعدد حفاظ نے اس کو صحیح قرار دیا ہے اور ابویعلی موصلی نے اپنی مسند میں جابر کے واسطے سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ حافظ ضیا نے کہا ہے کہ اس کے تمام رجال ثقہ ہیں اور حاکم نے کہا ہے کہ اس سلسلے میں صحیح روایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج عائشہ ، ام سلمہ اور زینب بنت حجش رضی اللہ عنہن کے واسطے سے ہے ۔ انھوں نے کہا کہ اس باب میں علی اور ابن عباس کے واسطے سے بھی روایت ہے۔ اس کے راوی تیس سے بھی زائد صحابیات ہیں ۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بغیر ولی کے نکاح درست نہیں ہوتا ہے۔ ایسا ہی بلوغ المرام کی شرح سبل السلام میں ہے] مسلک سوم داود ظاہری کا ہے کہ عورت ثبیہ کے لیے شرط اذن ولی نہیں ہے، بلکہ ثیبہ خود بلا اذنِ ولی کے نکاح کر سکتی ہے، اور باکرہ کا نکاح بغیر ولایتِ ولی کے جائز نہیں ہے اور اس کو کچھ اختیار نہیں ۔ لحدیث ابن عباس رضی اللّٰه عنہما أن النبي صلی اللّٰهُ علیه وسلم قال: (( الثیب أحق بنفسھا من ولیھا والبکر تستأمر، وإذنھا سکوتھا )) رواہ مسلم، و في لفظ من روایۃ ابن عباس: (( لیس للولي مع الثیب أمر، والیتیمۃ تستأمر )) رواہ أبوداود والنسائي، وصححہ ابن حبان۔[2] [ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کی بنیاد پر کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شوہر دیدہ (ثیبہ) اپنے ولی کے مقابلے میں بنفس نفیس زیادہ حق دار ہے اور دوشیزہ سے اجازت چاہی جائے گی اور اس کی اجازت اس کا سکوت ہوگا۔ اس کی روایت مسلم نے کی ہے۔ ابن عباس کی ایک روایت میں ایک لفظ ہے کہ ثیب کے معاملے میں ولی کو کوئی اختیار نہیں ہے اور یتیمہ سے
Flag Counter