Maktaba Wahhabi

236 - 702
نہیں ؟ بلکہ سوال اختیار کا ہے اور مجیب نے اگرچہ درمختار کی عبارت کے ضمن میں اختیار کا لفظ لکھاہے، لیکن در مختار کی یہ عبارت یہاں صحیح نہیں بیٹھتی کہ عورت مقدمہ کر کے نکاح فسخ کرا سکتی ہے۔ اور دوسرا جواب غلط ہے، اس لیے کہ شرط مشروط معاملات میں ہوتے ہیں نہ کہ نکاح وغیرہ میں ۔ دمیاطی نے لکھا ہے کہ اگر نکاح میں ایسی شرط لگائے جو نکاح کے مخالف ہو تو نکاح صحیح ہوجائے گا اور شرط باطل ہوجائے گی، اس لیے کہ نکاح شروط فاسدہ سے باطل نہیں ہوتا۔ (محمد عبدالحی) اہل علم پر مخفی نہیں ہے کہ جواب اول و دوم پر معترض کا اعتراض غفلت کی بنا پر ہے یا شاید یہ مقصد ہو کہ میں سید نذیر حسین پر اعتراض کروں اور اس سے فخر مقصود ہو، ورنہ جواب اول عین مطابق سوال ہے اور جواب ثانی بالکل درست ہے۔ اور تیسرے جواب کی دوسری وجہ کہ جس کو معترض نے صحیح کہا ہے، وہ اس وقت تک صحیح نہیں ہوسکتی، جب تک کہ جواب اول و دوم کو صحیح نہ تسلیم کر لیا جائے، ورنہ جواب سوال مذکور میں یہ وجہ محض ناکافی اور بے معنی ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ ایک آدمی نے فریب سے اپنے آپ کو سنی المذہب ظاہر کیا اور سنی عورت سے نکاح کر لیا۔ عورت جب اس کے شیعہ ہونے پر مطلع ہوئی تو اس کو نفرت ہوگئی۔ کیا اس کو فسخِ نکاح کا اختیار ہے یا نہیں ؟ پس مجیب اول نے جواب دیا کہ عورت کو اختیار ہے۔ اس جواب کو معترض سوال کے مطابق نہیں سمجھتا۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ سائل پوچھتا ہے: اس کو اختیار ہے یا نہیں ؟ اور مجیب کہتا ہے: اس کو اختیار ہے۔ اس سے زیادہ واضح اور مطابق سوال کیا جواب ہوسکتا ہے؟ چنانچہ معترض نے خود بھی اس کو تسلیم کیا ہے اور کہا ہے کہ در مختار کی عبارت اس کے مطابق نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سوال و جواب کی عدم مطابقت کا اعتراض بالکل بے جا ہے اور یہ بیان کہ در مختار کی عبارت مطابق سوال واقع نہیں ہے، یہ پہلے اعتراض سے بھی زیادہ عجیب ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ معترض ایسے اعتراض کیسے کر لیتا ہے؟ کیونکہ درمختار کی عبارت یہ ہے کہ اگر عورت نے اس شرط پر نکاح کیا کہ وہ آزاد ہے یا سنی ہے یا مہر اور نفقہ دینے پر قادر ہے۔ پھر اس کے برخلاف ظاہر ہوا کہ فلاں بن فلاں ہے یا حرام زادہ ہے تو اس کو اختیار ہے۔ یہ صریح دلیل ہے مجیب کے سوال پر کہ عورت فسخِ نکاح کا اختیار رکھتی ہے۔ اور معترض نے جو فسخِ نکاح کے لیے صورت مرافعہ حاکم کی بیان کی ہے، دو وجہ سے مخدوش
Flag Counter