Maktaba Wahhabi

237 - 702
ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ’’اس کو اختیار ہے‘‘ کے الفاظ عام ہیں ، خواہ حاکم سے فسخ کرائے یا خود فسخ کرے۔ اس کو پہلے معنی کے ساتھ خاص کرنا تخصیص بلا مخصص اور ترجیح بلا مرجح ہے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ علامہ ابن عابدین نے ’’رد المحتار‘‘ میں لکھا ہے کہ اگر مرد اپنا نسب غلط بیان کرے اور بعد میں معلوم ہو کہ وہ کفو نہیں ہے تو ہر ایک کو فسخ کا اختیار ہے، اور اگر کفو ہو تو صرف عورت کو فسخ نکاح کا اختیار ہے، دوسروں کو نہیں ۔ اور اگر اس کے یہاں سے وہ اچھا ثابت ہو تو کسی کو بھی اختیار نہیں ہے۔[1] پس معلوم ہوا کہ اس جگہ اختیار سے مراد اختیارِ فسخ ہے، جیسا کہ مجیب نے استدلال کیا ہے۔ اور اگر بالفرض معترض کے اعتراض کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ خیار کا معنی وہی ہے جو اس نے بیان کیا ہے تو پھر بھی مجیب کو حق ہے کہ اس سے استدلال کرے۔ کیونکہ سوال یہ ہے کہ عورت کو اختیار ہے کہ نہیں ؟ تو مجیب نے اس کا جواب دیا ہے کہ عورت کو اختیار ہے، خواہ وہ خود فسخ کرے یا حاکم سے کرائے۔ اور جواب ثانی جو جواب اول کے لیے بطور دلیل ہے، معترض نے اس کو دمیاطی کے قول کی بنا پر غلط قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ جملہ ’’إذا فات الشرط فات المشروط‘‘ (جب شرط فوت ہوجائے تو مشروط بھی فوت ہوجاتا ہے) صحیح نہیں ، کیونکہ شرط معاملات میں ہوتی ہے نہ کہ نکاح میں ، حالانکہ یہ کلیہ تمام معاملات دینی و دنیاوی میں نافذ ہے، بیع ہو یا آزادی یا نکاح، حتی کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت میں بھی جریر بن عبداﷲ سے آپ نے شرط کی تھی کہ ’’ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنا‘‘[2] اس میں اگر کوئی شرط ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ شرط صحیح ہو، غلط نہ ہو، اگر شرط صحیح ہوگی تو وہ نافذ ہوگی، ورنہ نہیں ۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سب سے زیادہ مؤکد شرط وہ ہے جس سے تم نے شرمگاہ کو حلال کیا۔‘‘[3] علامہ عینی نے بخاری کی شرح میں اسی حدیث کے تحت لکھا ہے کہ نکاح کے لیے شرائط کئی قسم کے ہیں ۔ بعض وہ ہیں جن کا پورا کرنا واجب ہے، مثلاً حسنِ معاشرت۔ بعض وہ ہیں جن کو پورا نہ کرنا چاہیے، مثلاً پہلی بیوی کی طلاق۔ بعض میں اختلاف ہے، مثلاً اس عورت پر کسی اور عورت سے نکاح نہ کیا جائے۔[4]
Flag Counter