Maktaba Wahhabi

239 - 702
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: {وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآئِ} [النساء: ۲۴] یعنی تم پر وہ عورتیں بھی حرام ہیں جو شادی شد ہ ہوں ۔ خواہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم ، شوہر سے جدائی کے بغیر ان سے نکاح جائز نہیں الا یہ کہ قید کرنے کے بعد لونڈی بنالی گئی ہو۔ حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے شانِ نزول میں مسند احمد کی ایک حدیث نقل کی ہے، جس میں ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ غزوہ اوطاس میں ہم نے کفار کی بہت سی عورتیں قید کیں ، مگر چونکہ ان کے شوہر موجود تھے، اس لیے انھیں ہاتھ لگانا ہم نے پسند نہ کیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم نے اس کے متعلق دریافت کیا تو مذکورہ آیت نازل ہوئی، پھر وہ ہمارے لیے حلال ہوگئیں ۔ یہ حدیث مسلم ، ابو داود، نسائی اور ترمذی وغیرہ میں بھی موجود ہے۔[1] شادی شدہ عورت سے نکاح کی حرمت پر پوری امت کا اتفاق ہے اور چونکہ مفقودالخبرکی بیوی بھی شوہر والی ہے، اس لیے اصل یہ ہے کہ اس سے نکاح بھی حرام ہو۔ کتاب و سنت کے واضح اور قطعی دلائل سے ظاہر ہوتا ہے کہ نکاح ہی سے حقوقِ زوجیت ، نفقہ، وراثت اور دیگر احکام ثابت ہوتے ہیں ۔ نیز اللہ تعالیٰ نے بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اور انہیں تکلیف نہ دینے کی تعلیم دی ہے او ر کسی طرح کی تکلیف یا ضرر پہنچانے سے روکا ہے ۔ نکاح یا زوجیت سے نکلنے کی تین صورتیں شریعت سے ثابت ہیں : طلاق، فسخِ نکاح اور موت۔ اس کے ساتھ ایسی صورت پیش آ ئے یا اس کے پاس نان نفقہ کے لیے کچھ نہ ہو تواسے روکے رہنا اور جبراً اسے اپنے شوہر کی زوجیت میں باقی رکھنا اس کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ خصوصاً جب کہ شوہر طویل مدت سے غائب ہو اور عورت بغیر نکاح کے تکلیف محسوس کرے تو یہ فسخ کی ایک معقول وجہ ہوگی اور اس صورت میں نکاح فسخ کرنا مناسب ہوگا۔ کیونکہ کتا ب و سنت میں عور توں کو تکلیف پہنچاتے ہوئے روکے رہنے سے کئی جگہ واضح طور پر ممانعت آئی ہے۔ لہٰذ ا اس عورت سے ہر ممکن طریقے پر تکلیف دور کرنا جائز بلکہ واجب ہے ، خواہ اس کے لیے فسخ کی ضرورت ہی کیوں نہ پیش آئے۔ مفقود الخبر کی بیو ی میں ضرر کی مختلف صورتیں پائی جاتی ہیں ، اس لیے اگر وہ شرعی عدالت میں اپنا معاملہ پیش کرنا چاہے
Flag Counter